جیکب آباد جہاں مندر، چرچ اور مسجد کی دیواریں ساتھ ساتھ ہیں

شکارپور روڈ پر ایک مقام ایسا ہے جہاں مسجد سے اذان کی آواز گونجتی ہے، مندر میں گھنٹیاں بجنے کے ساتھ لاؤڈ سپیکر پر بھجن گائے جاتے ہیں تو دوسری طرف چرچ میں مذہبی گیتوں کی صدا سنائی دیتی ہے۔

شمالی سندھ کے تاریخی شہر جیکب آباد میں تین مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہیں ساتھ ساتھ قائم ہیں، جو مقامی لوگوں کے مطابق بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی کے دور میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی مثال ہے۔

جیکب آباد شہر میں شکارپور روڈ پر ایک مقام ایسا ہے جہاں مندر، گرجا گھر اور مسجد کی دیواریں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ایک طرف ہندوؤں کی گئوشالہ اور مندر ہے، جبکہ درمیان میں مسیحیوں کا چرچ اور دوسری طرف مسجد ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شام کے اوقات میں ان تینوں عبادت گاہوں میں ایک ساتھ ہی عبادت ہوتی ہے۔ مندر میں گھنٹیاں بجنے کے ساتھ لاؤڈ سپیکر پر بھجن گائے جاتے ہیں، جبکہ چرچ میں مذہبی گیتوں کی صدا سنائی دیتی ہے تو دوسری طرف مسجد سے اذان کی آواز گونجتی ہے۔

بیپٹسٹ چرچ کے پاسٹر شارون یوسف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’تینوں عبادت گاہیں ایک ساتھ ہیں اور ان کی دیواریں بھی جڑی ہوئی ہیںم مگر اس کے باوجود قیام پاکستان سے لے کر اب تک کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تینوں مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں اور عبادت کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’شام کے اوقات میں ہمارے چرچ میں عبادت ہو رہی ہوتی ہے، جس میں ہم مذہبی گیت بھی گاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مندر میں لاؤڈ سپیکر پر بھجن چل رہے ہوتے ہیں اور جب اذان ہوتی ہے تو ہندو احترام میں لاؤڈ سپیکر بند کر دیتے ہیں۔‘

پاسٹر شارون یوسف کے مطابق چرچ کی زمین اصل میں مندر کے ساتھ بنی گئوشالہ کی ملکیت تھی اور انگریز دور میں جان جیکب کے ساتھ آنے والے مسیحیوں کو مقامی ہندوؤں نے یہ زمین عطیہ کی تھی تاکہ وہ لوگ اپنے لیے عبادت گاہ بنائیں۔

’قیام پاکستان کے وقت جب یہاں کچھ مقامی مسیحی آباد ہوئے تو باقاعدہ چرچ بنایا گیا۔ جیکب آباد کا یہ چرچ تقریباً 80 سال پرانا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’سندھ کی صوفیانہ دھرتی مذہبی ہم آہنگی کے لیے ایک پر امن خطہ ہے۔ یہاں مذہب کے نام پر کوئی تفرقہ نہیں ہے۔ خاص طور پر جیکب آباد میں آج تک کوئی مذہبی لڑائی نہیں ہوئی اور ہم سب محبت سے رہتے ہیں۔‘

پاسٹر شارون یوسف کا مزید کہنا تھا: ’مذہبی تہواروں میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو دعوت دے کر بلایا جاتا ہے اور سب کے تہواروں میں شرکت بھی کی جاتی ہے۔ یہ جگہ مذہبی ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال ہے۔ یہاں کسی بھی مذہب کے ماننے والے کے ساتھ کوئی بھی مسئلہ ہو تو تینوں مذاہب کے لوگ ان کی مدد کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا