سوشل میڈیا انقلابی محبوب کے نام ایک لو لیٹر

میں فیس بُک کے تمہارے کتنے ہی کمنٹس کے آگے صدقوں کا بند باندھوں؟ بّری امام کس کس رنگ کا دھاگا باندھوں ؟  ’تیرے سر کا سائیں سلامت رہے‘ کی صدا لگاتی اُس بوڑھی فقیرنی کو کب تک تمہاری سلامتی کی قیمت دیتی رہوں ؟

یارِ من!

سرما کی طویل راتیں اب تمھارے ساتھ گزرے وقت کی یاد کی حدت سے روشن اور پر سکون رہتی ہیں ۔ویسے بھی سرما اب بہار میں بدل رہا ہے تو بھلا سا لگتا ہے ۔ مسائل اب بھی وہی ہیں اور وہیں  ہیں جہاں پہلے تھے اور جیسے پہلے تھے ۔ مگر وه جو کائنات کو گلے لگالینے کی خواہش کبھی ہوا کرتی تھی ،پھر سے جاگ اٹھی ہے ۔ بس ذرا سی تبدیلی آئی ہے مزاج میں۔ پہلے جن باتوں پہ کُڑھتی تھی ،اب انہی پر ہنستی ہوں ۔ اگرچہ ایک نقصان بھی ہو گیا ،وہ جو دو سے زیادہ دہائیوں کے رکے آنسو تھے، بہہ گئے ہیں ، اب بات بے بات رونا آ جاتا ہے لیکن کوئی نہیں یہ بھی اچھا ہے، نیا جو ہے۔

ہم غلط دور میں پیدا ہوئے ہیں نا ، دل رکھتے ہیں جو محسوس کرتا ہے ہر جذبے کو ، آنکھ رکھتےجو سب رنگ دیکھتی ہے ۔کان رکھتے ہیں جو صرف موسیقی سننا جانتے ہیں ۔چاہے جسموں کی ہو یا لمحوں کی، مگر ہم خون دیکھنے پر مجبور ہیں ، ظلم دیکھنے پر مامور ہیں ۔ آہیں اور نوحے سننے میں مشغول ہیں۔

تمہاری بےپناہ مصروفیت کے باوجود جو لمحے ہم چرا لیتے ہیں ۔ایک دوسرے کے لیے ۔تو بھوک لگنے پہ کچھ کھا لینا تک مشکل لگتا ہے ۔ کمال   یہ ہے کہ جب کھڑکی سے لگی کوئی میرے ہی جیسی ( اگرچہ مجھ سے زیادہ حسین ،مگر حالات کی ماری ہوئی ) مجھے "مولا جوڑی سلامت رکھے" کی دعا دیتی ہے تو دہی بھلوں کی اس پلیٹ میں دہی کی جگہ خون سا بھر جاتا ہے۔ یہ طبقاتی فرق اس دعا کا مزہ بھی کرکرا کر دیتی ہے ،جو وہ بھلی مانس بےخبری میں دے جاتی ہے۔

  تمهارے اور میرے وصل کے لمحات سےزیادہ حسین تمہاری قسم کوئی لمحہ نہیں ہوتا ،مگر تب بھی مجھے مسیحاؤں کے ہاتھوں لُٹتی اسماکا درد ایک دم بےچین کر دیتا ہے ۔ اپنے اپنے مذہب پہ آزادانہ گفتگو کرتے ہوئے مجھے آسیہ بی بی کی پر نور مگر مجبور آنکھیں یاد آ جاتی ہیں ۔اظہارِرائے کی آزادی کے ہر خواب کے ساتھ مشال کا قتل اس خواب سے کچھ اور دور لے جاتا ہے۔

اس ملک کے ہر بچے کو اختلافِ رائے کا سلیقہ آ جانے کی خواہش اور آراء سے زیادہ انسانوں کی قدر کی اُمید بلال کے جسم میں لگے خنجروں کے گھاو کے ساتھ قتل ہو جاتی ہے۔

ریاست کو ماں کے جیسا دیکھنے کے ارمان کے ساتھ ارمان لونی کو اُسی ماں کے حوالے کرتے بے بس ہم وطن غداری کا داغ لیے گھروں کو بھی نہیں پلٹ سکتےتو میرے گھر کی بنیاد میں خوف کی مٹی بھر دیتے ہیں۔

ہم جو ایسے ہیں کہ بلی کے بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے ،روز اپنے بچوں کو، انسانوں کے بچوں کو عمران جیسے درندوں کے ہاتھوں لُٹتے دیکھتے ہیں اور پھر ایسا کچھ اور نہ دیکھنے کی خواہش لیے سو جاتے ہیں۔

ارے ! یہ تو میں کیا ہی لے کے بیٹھ جاتی ہوں ۔اب جو نیا خدشہ ہے، وہ تمہارے متعلق ہے۔ سنا ہے کہ بہت آسان ہو گیا ہے اپنی ذاتی عنادکو مذہب اور گستاخی کے پلڑے میں ڈالو اور فیصلہ کر کے کسی کو بھی جنّت دوزخ میں ڈال دو۔ سو یہ جو تم ضرورت سے زیادہ سچ لکھ دیتے ہونا ،  یہ آج کے دور میں خالص دیسی گھی کی طرح ہے،جو ہر ایک کو ہضم تھوڑی ہوتا ہےپاگل ۔میں جتنی بھی انقلابی ہوں ،عالمگیریت اور انسانیت کی جتنی مرضی قائل ہوتی رہوں، مزدوروں اور کِسانوں  کی آزادی کے سرخ خواب  بھلے ہی میری آنکھوں میں چمکتے ہوں ، تمہارے ساتھ فرد کی آزادی کے نعرے چاہے جتنے مرضی لگائے ہوں،  انسان کو مذہب سے مُقدم رکھنے کے کتنے ہی عہد کیے ہوں مگر میرا ’یارم‘  تمہارے علاوہ تو  اور کوئی نہیں ہے ۔ اپنا خیال تم کسی کو رکھنے نہیں دیتے اور خود رکھتے نہیں ہو ۔ کچھ کہتے ہو نہیں اور جو کوئی کچھ کہہ دے تو سنتے کب ہو؟ امام ضامن تم باندھنے نہیں دیتے اور تعویذ تم پہنتے نہیں ہو، نہ تمھارا کوئی حال ہے اور نہ  کوئی حل۔

 مگر یارم سُنو!

اپنی خاطر نہ سہی  مگر خود سے جڑے اتنے سارے لوگوں کے لیے ہی خود کا خیال رکھ لیا کرو ۔یہاں کچھ نہیں بدلنے والا۔   یہ جمہوریت ،یہ آمریت ، یہ سامراجیت ، یہ کولڈ وار ، یہ فتوے ، یہ مرتے لوگ ، یہ بھوک کی خاطر بکتی عورت ، یہ حیا اور بے حیائی کے نعرے ، یہ نصابی سوچ اور لبرل ازم کی دوڑ ، یہ جسم کے بھوکے،  ہوس کے مارے کہ جن کی بھوک معصوم بچوں کے جسموں سے بھی نہیں مٹتی، یہ سب ایسا ہی رہے گا۔

میں فیس بُک کے تمہارے کتنے ہی کمنٹس کے آگے صدقوں کا بند باندھوں؟ بّری امام کس کس رنگ کا دھاگا باندھوں ؟  ’تیرے سر کا سائیں سلامت رہے‘ کی صدا لگاتی اُس بوڑھی فقیرنی کو کب تک تمہاری سلامتی کی قیمت دیتی رہوں ؟ تمہاری کس کس ٹوئیٹ کی توجیحات لیے میں لوگوں سے جھگڑتی پھروں کہ تم یہ نہیں ’یہ‘ کہہ رہے ہو۔ کوئی تمہارا مسلک اور عقیدہ نہیں جانتا یہاں مگر تم پر کُفر کے فتوی ہر کوئی لگا دیتا ہے۔

 یہ جو تمہاری ہر پوسٹ پہ واہ واہ کرتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ تمہاری ماں نے تمہیں کتنی مُشقت سے، کتنی دھوپ میں اور کتنی مخالفتوں کے بعد ایسا بنایا ہے۔

تمہیں شاباشی دینے والے نہیں جانتے کہ تمہارا بھی ایک خواب ہےجو سرخ اینٹوں والےایک گھر کا ہے اور جس میں دیاری لکڑی کے فرش والا ایک کمرہ ہے جہاں بیٹھ کے تم میرے قدموں کی آواز کو آنکھیں بند کر کے ُسنتے رہو۔

 جہاں تمہاری بیٹی کسی خوف کے بنا اپنی گُڑیا کا گھر بناتے ہوئے تمہیں کہانی سنائے اور کہے کہ ابّا یہ میں نے ابھی ابھی سوچی ہے۔ جہاں تم اپنے وطن کے لوگوں کو سُکھ سے جیتا دیکھواور محبت کی نظمیں لکھو۔

خدا کا واسطہ ہے میرے خواب کے ساتھی!

لکھنا ہی ہے تو محبت پہ لکھو ،اعتبار پہ لکھو، وصل پہ لکھو ، دوستی پہ لکھو، برداشت پہ لکھو، پیار پہ لکھو مگر اتنا سچ مت لکھو یہ مجهے ایک روایتی عورت بلکہ ماں کی طرح وہمی سا بنا رہا ہے۔

 میں تمہیں محفوظ اور زندہ دیکھنا چاہتی ہوں ۔

تم میرے بارے میں کچھ جاننا تو چاہتے ہی ہوگے کہ کیا کیا چل رہا ہے میری زندگی میں ،مگر پوچھو گے نہیں تو میں بتا دیتی ہوں ۔

اتنے دنوں سے جو تصویر بنانا شروع کی ہوئی ہے نہیں بن پا رہی ۔ ایک رنگ کی دوسرے رنگ میں ویسی آمیزش نہیں ہو پا رہی  جیسی میں چاہتی ہوں۔ ہر رنگ خون کا سرخ رنگ دِکھتا ہے اور میں مہندی کا رنگ ڈھونڈ رہی ہوں ۔ تین کتابیں ابھی رہتی ہیں پڑھنے والی مگر دو اور لے آئی ہوں ۔ لفظ جھوٹ لگتے ہیں اب ۔ گھر میں سب ویسے ہی ناراض ہیں مگر میں کیا کروں ،اب منا منا کے بھی تھک گئی ہوں ۔ وہ اپنے نکتہ نظر کو درست سمجھتے ہیں مگر غلط میں بھی نہیں ہوں ۔

اور ہاں !پہلےسے زیادہ حسین ہو رہی ہوں۔ فرصت ملے تو کسی روز سائبر ورلڈ کی سیاہی چھوڑ کے محبت کے روشن دن کی طرح آ کے دیکھ جاو ۔

چلو! اب میں بس کرتی ہوں ۔پھر لکھوں گی ۔

پس تحریر : تمہیں بے شمار یاد کرتی ہوں، فراغت میں کم ،مگر مصروفیت میں ہمیشہ ۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ