پہلے ناول کی کامیابی کے بعد بیشتر مصنف ناکام کیوں ہو جاتے ہیں؟

’میرے خیال میں ایک غیرمعمولی افسانہ تحریر کرنا بذات خود ایک قابل قدر کارنامہ ہوتا ہے اور دوسرے ناول کی فکر میں گُھلنے کی بجائے پہلی کامیابی کا جشن منانا چاہیے۔‘

اس کیفیت کو ’سیکنڈ ناول سنڈروم‘ کہا جاتا ہے اور اکثر ناول نگار اس کا شکار بن جاتے ہیں۔

اپنے پہلے ہی ناول کی کامیابی کے بعد دوسری کتاب لکھنے کا دباؤ یا تو مصنفین کے لیے دہشت پیدا کرتا ہے یا پہلی کامیابی ان کو مکمل اعتماد فراہم کرتی ہے۔

کمپوٹر کی خالی سکرین اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مصنف سے دوبارہ متاثر کن  تحریر کی امید کی جا رہی ہے۔ اس کیفیت کو ’سیکنڈ ناول سنڈروم‘ کہا جاتا ہے اور اکثر ناول نگار اس کا شکار بن جاتے ہیں۔

برطانیہ کے سب سے معتبر ایوارڈز ’دی ڈیسمنڈ ایلیٹ پرائز‘ پہلی بار ناول نگاری کرنے والے بہترین مصنف کو دس ہزار پاونڈ کی انعامی رقم سے نوازتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ دوبارہ بھی اتنا ہی اچھا ناول تحریر کریں گے۔

2004 میں اپنی کتاب ’دی لائن آف بیوٹی‘ کے لیے ’دی مین بُکر پرائز‘ جتنے والے مصنف اور ’دی ڈیسمنڈ ایلیٹ پرائز‘ ججنگ پینل کے رکن ایلن ہولنگ ہرسٹ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’حالانکہ ان مصنفین پر دوسری بار لکھنے کے لیے معاہدہ کی کوئی پابندی نہیں ہوتی تاہم انعامی رقم جتنے کے بعد ان سے امیدیں باندھ لی جاتی ہیں کہ یہ انعام و اکرام ان میں دوسرا ناول لکھنے  کے لیے تحریک پیدا کرے گا اور یہ کہ آنے والی تحریر کے لیے پڑھنے والے پہلے سے ہی تیار بیٹھیں ہوں گے۔‘

’میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میرے پہلے ناول ’دی سوئمنگ پول لائبریری‘ جو 1988 میں شائع ہوا تھا، نے برطانیہ اور امریکہ میں دھوم مچا دی تھی۔ میرا خیال ہے کہ دوسرا ناول لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی پہلی تخلیق کی کامیابی سے ملتی ہے اور میں یہ جانتا ہوں کہ میں دوسری تحریر کے لیے اس کی ترتیب اور مزاج کو مختلف انداز سے پیش کرنا چاہتا تھا۔ میں جب یاد کرتا ہوں تو میں پاتا ہوں کہ اس کا آغاز کرنا کتنا مشکل تھا لیکن جب میں نے ایک بار اسے شروع کر دیا تو وہ تحریر میرے لیے اتنی پُرلطف اور دلچسپ ثابت ہوئی کہ وہ آج تک قائم ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماضی میں جن مصنفین نے اپنے پہلے ناول کے باعث کامیابیاں سمٹی ان میں آئرش ناول نگار ایمیر میک برائڈ بھی شامل ہیں جن کو ان کے پہلے ناول ’اے گرل از آ ہاف تھنگ‘ کے لیے 2014 میں دی ڈیسمنڈ ایلیٹ پرائز دیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں خواتین کے لیے افسانہ نگاری ’دی وومینز پرائز فار فِکشن‘ کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

دی ڈیسمنڈ ایلیٹ پرائز کا آغاز 2007 میں ہوا تھا اور اس کے بعد سے یہ انعام جتنے والے تمام مصنفین نے دوبارہ ناول تحریر کیے ہیں سوائے فرانسس سپافورڈ کے جن کو 2017 میں یہ اعزاز ان کے پہلے ناول ’گولڈن ہِل‘ کے لیے دیا گیا تھا۔ تاہم اب وہ نئے ناول پر کام کر رہے ہیں۔

اس فہرست میں رواں سال کا ایوارڈ جتنے والی مصنفہ کلیر ایڈم بھی شامل ہیں جن کو ان کی تصنیف ’گولڈن چائلڈ‘ کے لیے دی ڈیسمنڈ ایلیٹ پرائز دیا گیا۔

ہولنگ ہرسٹ  کا کہنا ہے کہ ان تمام مصنفین کی تخلیقات نہایت عمدہ اور خوفناک حد تک حقیقت کے قریب تر تھیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ایوارڈ یافتہ مصنفین دوبارہ ایسے شاندار ناول کیوں تحریرنہیں کر پائے۔ کیا یہ صرف ایک بار ہی قسمت کا کھیل تھا؟

تاہم مین بُکر پرائز کے لیے سالوں سے کام کرنے والے پیٹر سٹراس ایسا نہیں سوچتے۔

سٹراس کے مطابق: ’میرے خیال میں ایک غیرمعمولی افسانہ تحریر کرنا بذات خود ایک قابل قدر کارنامہ ہوتا ہے اور دوسرے ناول کی فکر میں گُھلنے کی بجائے پہلی کامیابی کا جشن منانا چاہیے۔‘

کچھ معاملات میں دوسری تصنیف کے مقابلے میں پہلی کتاب لکھنے کا خوف دل کو جھنجھوڑ دینے والا ہوتا ہے جیسا کہ امریکی مصنف ہارولڈ بروڈکے کے ساتھ ہوا جہنوں نے اپنی پہلی کتاب کی تکمیل میں 27 برس لگا دیے۔ ہارولڈ کے ناول ’دی رن آوے سول‘ کو 1961 میں شائع ہونا تھا تاہم وہ اس کو 1991 میں مکمل کر پائے جبکہ ان کی دوسری تنصیف محض تین سال بعد منظرعام پر آ گئی تھی۔

پھر کچھ ایسے مصننفین ہوتے ہیں جو ایک ہی قابل ذکر کتاب تحریر کر کے ماضی کی دھول میں کھو جاتے ہیں۔   

مثال کے طور پر جے ڈی سیلنگر نے اپنے قلم سے’کیچر اِن دی رے‘ کے بعد کچھ تحریر نہیں کیا۔ اسی طرح میری شیلے نے بھی اپنے شہرہ آفاق ناول ’فرینکینسٹین‘ کے بعد مزید کچھ لکھنے سے اغماض ہی برتا۔

لیکن جب آپ ایملی برونٹے جیسا کلاسیک ناول ’وتھرنگ ہائیٹس‘ تحریر کرتے ہیں تو قارئین آپ کے قلم سے مزید پڑھنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔

معروف شاعرہ سلویا پلاتھ کا اکلوتا ناول ’دی بیل جار‘ 1963 میں شائع ہوا۔ سلویا نے اس ناول کو اپنے اصل نام کی بجائے تخلص سے شائع کیا تھا جو حقیقت میں مصنفہ کی خود گزشت تھا جس میں انہوں نے اپنے ذہنی مرض کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا۔  دلچسپ بات یہ ہے اس شہرہ آفاق ناول کو بڑے برطانوی اور امریکی ناشروں نے شائع کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انہوں نے وکٹوریہ لوکاس کے فرضی نام سے اس کی اشاعت کا راستہ نکالا تھا۔

2018 کا ایوارڈ جیتنے والی بھارتی نژاد برطانوی مصنفہ پریتی تانیجا جن کے ناول ’وی ڈیٹ آر ینگ‘ پر ٹی وی ڈرامہ بنایا جا رہا ہے، ابھی تک اپنا دوسرا ناول لکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جذبات باہر سے نہیں بلکہ آپ کے اندر سے آتے ہیں۔

’یہ دباؤ ان کرداروں کا ہوتا ہے جو میرے ذہین میں بسے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی آوازوں کو سننے اور ان کو دیکھنے کے لئے اظہار کی ضرورت ہے۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جو میں سنانا چاہتی ہوں‘

پہلی بار لکھنے والے کامیاب ناول نگاروں کے لیے دوسرا ناول لکھنا ٹوپی سے دوبارہ خرگوش نکالنے کے متراف ہوتا ہے، مصنفین کے رائٹرز بلاک کا خوف اور حالیہ کامیابی کو کھو دینے کے ڈر سے ان کا مستقبل ہمیشہ غیر یقینی رہتا ہے۔

کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ آپ کی اگلی کتاب پہلی کی طرح کامیاب رہے گی۔ ایسا 10 ناولوں کے بعد بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ ہلیری مینٹل کے ساتھ ہوا تھا۔

ہلیری کو 1985 میں اپنے پہلے ناول ’ایوری ڈے از مادرز ڈے‘ کی کامیابی کے بعد سٹار بننے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا تھا جب 2009 میں ان کے ناول ’ولف ہال‘ اور 2013 میں ’برنگ اپ دی باڈیز‘ کے لیے ان کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔

لیکن جیسا کہ کوئی بھی مصنف یا ایجنٹ آپ کو بتائے گا کہ کامیابی حاصل کرنے کا واحد طریقہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ آپ کو لکھنا جاری رکھنا ہو گا۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین