کیا پنجاب میں کھلے دودھ کی فروخت بند ہو جائے گی؟

پنجاب فوڈ اتھارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب کے رہائشی اس وقت جو دودھ پی رہے ہیں اس کا معیار صوبے میں موجود پینے کے مضر پانی سے بھی خراب ہے۔

’2022 سے پنجاب میں کھلے دودھ کی فروخت بند کر دی جائے گی‘ (اے ایف پی)

پنجاب فوڈ اتھارٹی (پی ایف اے) نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب کے باسی اس وقت جو دودھ پی رہے ہیں اس کا معیار صوبے میں موجود پینے کے مضر پانی سے بھی خراب ہے اور اب ادارہ اس پر کام کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان یونس نے کہا کہ پی ایف اے نے ٹھان لیا ہے کہ کم از کم پنجاب میں سال 2022 کے بعد کھلے دودھ کی فروخت بند کر دی جائے گی۔

پاکستان کے اقتصادی سروے 16-2015 کے مطابق ملک میں دودھ کی سالانہ پیداوار 50 ارب لیٹر ہے جبکہ 75 فیصد عوام کو معیاری دودھ میسر نہیں ہے۔  

کیپٹن عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2017 میں پی ایف اے نے پنجاب اسمبلی سے ایک قانون پاس کروایا جس کے مطابق 2022 کے بعد کھلے دودھ کی فروخت پر پابندی ہوگی اور تمام ڈیری فارمز اور گوالے اپنے جانور کا دودھ پاسچرائز  کرنے کے بعد ڈبوں میں، پلاسٹک بیگز یا شیشے کی بوتل میں بند کر کے صارف تک پہنچائیں گے ۔

یہی نہیں بلکہ ڈیری فارمز یا گوالے پاسچرائزیشن سے قبل صحت مند، حلال جانور سے حاصل کردہ دودھ کے معیار کو کسی مستند لیبارٹری سے چیک کروائیں گے، معیاری دودھ کو تیس منٹ کے لیے 63 ڈگری سیلسیس پر ابالا جائے کا اور اس کے بعد اسے 4 ڈگری سلسیس پر فوراً ٹھنڈا کر لیا جائے گا۔ اس طرح دودھ میں موجود نقصان دہ بیکٹیریا مر جایئں گے۔

اس کے بعد اس جراثیم سے پاک دودھ کو ڈبوں میں پیک کیا جائے گا اور ان ڈبوں پر ملک پروسیسر کا پتہ اور دودھ کی مدت معیاد بھی درج کرنا لازم ہوگا۔ اس کے بعد مارکیٹ میں فروخت کے لیے اسے مخصوص درجہ حرارت برقرار رکھنے والی گاڑیوں کے ذریعے ترسیل کیا جائے گا۔

کیپٹن عثمان کے مطابق حلال جانور کا دودھ اگر چند  گھنٹوں میں نہ ابالا جائے تو اس میں  بیکٹیریا کی تعداد اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہ خراب ہو جاتا ہے اس لیے اسے فوراً ابالنا پڑتا ہے جس کے بعد اگر آپ اسے نارمل درجہ حرارت پر رکھتے ہیں تو وہ چار سے چھ گھنٹے میں خراب ہوجاتا ہے اور اگر آپ اسے ٹھنڈا کر لیتے ہیں تو وہ آٹھ سے دس گھنٹے میں خراب ہو جاتا ہے۔ اب ان گھنٹوں کی ڈیڈ لائن اکثر ملاوٹی دودھ بیچنے والے پوری نہیں کر سکتے تھے جس کی وجہ سے وہ دودھ میں مختلف قسم کے مضر صحت کیمیکلز ملا دیتے ہیں تاکہ دودھ دیر تک خراب نہ ہو ۔

ان کیمیکلز میں یوریا، فارملین، ہائڈروجن پر آکسائیڈ، سوڈیم ہائیڈروآکسائیڈ، میلانن، امونیم سلفیٹ، امونیم کمپائونڈز یہاں تک کے صابن اور ڈیٹرجنٹ شامل ہیں۔ یہ تمام کیمیلکز السر، تیزابیت، کینسر، ہڈیوں کا بھربھرا پن، دل کی دھڑکن میں بے قائدگی یا نظام انہظام میں خرابی کا سبب بنتے ہیں۔

اسی طرح دودھ کی طلب اور رسد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس میں پانی ملایا جاتا ہے جس کے معیار کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے علاوہ کچھ گوالے اپنی بھینسوں کو کچھ ایسے ٹیکے لگاتے ہیں جس سے وہ جلد اور زیادہ دودھ دینے لگتی ہیں اور یہ انجیکشن جانور اور صارف دونوں کی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ پی ایف اے نے اس مہم پر کام شروع کر یدا ہے۔

کیپٹن عثمان نے کہا: ’اب وقت آگیا ہے کہ ہم ڈیری فارمز والوں کو بزنس ایڈجسٹمنٹ ٹائم دینا شروع کریں تاکہ وہ پاسچرائزیشن پلانٹس لگانے کے لیے اقدامات کریں۔ اور اس دوران وہ کولڈ چین کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا دودھ صارف تک پہنچائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ اس وقت دس سے بارہ پلانٹس لگے ہوئے ہہں مگر ہم پرائیویٹ سیکٹر کو ترجیح دے رہے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور یہ پلانٹس لگائیں۔صرف لاہور کے لیے انہیں تین ہزار پاسچرائزیشن پلانٹس چاہیے۔

ان کا ذاتی خیال ہے کہ اس سلسلے میں صرف پرائیویٹ سیکٹر کو ہی آگے آنا چاہیے یا ڈیری فارم والے انفرادی طور پر یہ پلانٹ لگائیں کیونکہ ’اگر حکومت لگاتی ہے تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ حکومت تبدیل ہونے پر یہ پلانٹس سیاست کی نظر ہو سکتے ہیں۔ ہاں البتہ حکومت کچھ حد تک سبسڈی ضرور دے سکتی ہے۔‘

ان کے خیال میں  پرائیویٹ سیکٹر جب پیسہ لگائے گا تو اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھائے گا۔ اس کے علاوہ ہزاروں نوکریاں بھی پیدا ہوں گی کیونکہ اس میں پیکنگ انڈسٹری شامل ہو گی اور ٹرانسپوٹیشن اندسٹری بھی شامل ہو جائے گی۔

کیپٹن عثمان نے بتایا کہ ایک گھنٹے میں ایک ہزار لیٹر دودھ پاسچرائز کرنے والا لوکل پلانٹ پچاس سے ساٹھ لاکھ روپے میں مل جاتا ہے جبکہ امپورٹڈ سوا کروڑ روپے میں مل جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب یہ پلانٹس کام کرنا شروع کردیں گے تو ان پر پورا چیک رکھا جائے گا۔ وہاں کیمرے لگائے جائیں گے، دودھ کے ہر بیچ کی ٹیسٹنگ ہو گی اور اس کی رپورٹ ریکارڈ میں لگے گی۔

’اس کے علاوہ میں خود یا فوڈ انسپکٹر ہفتے میں ایک بار خود چکر لگا کر تمام پلانٹس کے معیار کو چیک کریں گے۔ اس سے یہ ہوگا کہ دودھ میں ملاوٹ ختم ہو جائے گی اور اگر اس سب کے باوجود کوئی ملاوٹ کرے گا تو جیسے ابھی ہم نے کچھ روز پہلے چار لاکھ لیٹر غیر معیاری دودھ تلف کیا بالکل اسی طرح وہ دودھ بھی ضائع کر دیا جائے گا۔‘

دوسری جانب ملک سیلز اینڈ سپلائیز ایسوسی ایشن کے چئیرمین میاں عمران محمود کا کہنا ہے کہ حلال جانور کا دودھ نکالنے کے بعد اگر اسے 3 یا 4 ڈگری پر رکھا جائے تو اس کی مدت معیاد 72 گھنٹوں تک چلی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’حکومت آج تک فیکٹریوں میں بننے والے جعلی دودھ کو تو روک نہیں سکی جن میں ٹی وائٹنر اور پام آئل ڈال کر دودھ بنایا جا رہا ہے اور یہ لوگ ہم ڈیری فارمز والوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔‘

میاں عمران نے دعویٰ کیا کہ کہیں کوئی ملاوٹی د ودھ نہیں بیچا جارہا۔ ساتھ ہی ان کہ یہ بھی کہنا تھا: ’گذشتہ کچھ عرصے میں پنجاب فوڈ اتھارٹی ان کا 61 لاکھ کی مالیت کا دودھ ضائع کر چکی ہے مگر جب ہم نے اس کی رپورٹ طلب کی تو اس پر آج تک ہمیں کوئی تحریری جواب نہیں دیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ حکومت پاسچرائزیشن پلانٹس  ضرور لگوائے مگر اس سے پہلے کچھ اقدامات اور بھی کرے جیسے زیادہ تر بھینسوں کے باڑے دریا کنارے ہیں جہاں دن میں دو سے تین گھنٹے کے لیے بجلی آتی ہے، پہلے ان علاقوں کو لوڈ شیڈنگ فری کریں۔ دوسرا گوالوں کو صفائی کے ساتھ حلال جانور کا دودھ نکالنے کی تربیت دی جائے اور تیسرا سڑکوں کی حالت بہتر کی جائے تاکہ دور دراز کے علاقوں سے آنے والا دودھ جلد اپنی خالص حالت میں اپنے صارف تک پہنچ جائے۔

یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کے چئرمین ڈاکٹر جاوید اکرم  بھی پاسچرائزیشن پلانٹس کے حق میں ہیں مگر ان کے خیال میں خالص دودھ کو کولڈ چین برقرار رکھ کر بھی صارف تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دودھ میں مضر صحت کیمیکل ڈالے جاتے ہیں جو مختلف اقسام کی بیماریاں پیدا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ ایک چھوٹی بھینس کو ٹیکا اس لیے لگایا جاتا ہے کہ وہ وقت سے پہلے بڑی ہو جائے اور زیادہ دودھ دے۔ اس ٹیکے کے ذریعے ان میں ہارمونز ڈالے جاتے ہیں اور انہی کا دودھ ہمارے بچے بچیاں بھی پیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں اب بچیوں میں بلوغت کی عمر کافی کم ہو گئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس لیے اس ملاوٹی دودھ کو روکنا پڑے گا اور تجویز دی کہ کہ اس کام میں وہ مختلف میڈیکل یونیورسٹیوں کو بھی ساتھ ملائیں تاکہ دودھ کے خالص پن کو برقرار رکھنے کی یہ کوشش آگے بڑھ سکے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان