ڈالر کو اونچا کون اڑاتا ہے؟

ڈالر کی اڑان پر جہاں حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ڈالر کی ریکارڈ بلند ترین قدر کے پیچھے کیا عوامل ہیں اور ڈالر کی قیمت آخر کون طے کرتا ہے۔

دنیا بھر کی تجارت زیادہ تر ڈالر میں کی جاتی ہے۔ امریکی ڈالر کو دنیا کی ریزرو کرنسی سمجھا جاتا ہے۔ تصویر : ای ایف پی

ڈالر آج پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین پر پہنچ گیا۔ انٹر بینک میں ڈالر ک خرید و فروخت 164 روپے تک جا پہنچی ہے۔ ڈالر کی اڑان پر جہاں حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ڈالر کی ریکارڈ قدر کے پیچھے کیا عوامل ہیں اور ڈالر کی قدر کون طے کرتا ہے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت کیسے طے ہوتی ہے اور کون اسے طے کرتا ہے۔

ڈالر کی قدر کے پیچھے سائنس

دنیا بھر کی تجارت زیادہ تر ڈالر میں کی جاتی ہے۔ امریکی ڈالر کو دنیا کی ریزرو کرنسی سمجھا جاتا ہے۔

ڈالر کی قیمت کے تعین کا سب سے زیادہ اہم عنصر ڈالر کی طلب اور رسد ہے۔ اگر ڈالر کی طلب زیادہ ہو گی تو اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہو گا۔

غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اگر وافر ہوں تو تو ملکی کرنسی مضبوط ہوتی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کرنٹ اکاونٹ یعنی ملکی درآمدات اور برآمدات پر منحصر ہوتے ہیں۔ اگر کرنٹ اکاونٹ خسارے میں ہو گا یعنی درآمدات برآمدات سے زیادہ ہوں گی تو زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اسی طرح اگر کرنٹ اکاونٹ منافع میں ہو گا یعنی درآمدات کے مقابلے میں برآمدات زیادہ ہوں گی تو ملک میں ڈالر زیادہ آئیں گے جس سے مقامی کرنسی مستحکم ہو گی۔

بظاہر برآمدات بڑھا کر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کا طریقہ کار بہتر لگتا ہے مگر ممالک کو اس میں بھی توازن رکھنا پڑتا ہے کیونکہ اگر مقامی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہو جائے تو دیگر ممالک کے لیے اس ملک سے تجارت کرنا مہنگا ہو جاتا ہے۔

بین الاقوامی منڈی میں ڈالر کی طلب و رسد بھی روپے کی قدر پر اثر انداز ہوتی ہے۔

پاکستان میں ڈالر کی اڑان کے پیچھے عوامل

دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ڈالر کی قیمت طلب و رسد پر منحصر ہے۔ ڈالر کی طلب و رسد میں عمومی طور پر دو اہم فریق ہوتے ہیں۔ ایک کرنسی ایکسچینج ڈیلر (منی چینجر) اور دوسرا سٹیٹ بینک آف پاکستان۔ کرنسی ایکسچینج مارکیٹ میں اگر ڈالر کی طلب زیادہ ہو جائے تو اس کی قیمت بھی زیادہ ہو جاتی ہے جبکہ اگر سٹیٹ بینک زرمبادلہ کے ذخائر میں موجود ڈالرز کو مارکیٹ میں استعمال کے لیے نہ دے تو اس سے بھی ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔

17 جون کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کا کہنا تھا کہ ’ایکسچینج ریٹ کو طویل مدت کے لیے مستقل رکھنا مناسب پالیسی نہیں ہے، اور ہمارے فائدے میں نہیں ہے۔ جب سے ایکسچینج ریٹ تبدیل ہونا شروع ہوا ہے تو اس کے بعد ہمارا بیرونی خسارہ کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔‘

ڈالر کی اڑان کے پیچھے موجود نظام میں تیل کی درآمدات کا بھی کلیدی کردار ہے۔ پاکستان کی درآمدات کا زیادہ تر حصہ تیل کی درآمد میں چلا جاتا ہے۔ تیل کی خرید کی ادائیگی ڈالر میں کی جاتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے اتنے ذخائر موجود ہوں کہ ان ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ حکومت پاکستان نے اسی لیے گزشتہ دس مہینوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تیل کی خرید پر تعطل کے ساتھ ادائیگی کی سہولت کی درخواست کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈالر کی قیمت کو کون کنٹرول کرتا ہے؟

عموما ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ کرتی ہے اور حکومت یا مرکزی بینک مداخلت نہیں کرتا۔ اس پالیسی کو ‘فری فلوٹ’ بھی کہا جاتا ہے مگر حکومتیں ہر کوشش کرتی ہیں کہ ڈالر کی قدر ان کی معاشی پالیسیوں کے مطابق رہے جس کے لیے وہ سٹیٹ بینک (مرکزی بینک) کے ذریعے توازن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جہاں موجودہ حکومت نے ڈالر کی قدر کو بڑھنے دیا ہے وہیں سٹیٹ بینک کے گورنر کا کہنا ہے کہ فری فلوٹ کرنسی ایکسچینج ریٹ پاکستان کے لیے مناسب نہیں ہے۔ رضا باقر کے مطابق مارکیٹ میں غیر یقینی سے بچنے کے لیے سٹیٹ بینک جہاں طلب و رسد کو خودکار طور سے ایکسچینچ ریٹ کا تعین کرنے دے گا وہیں مارکیٹ پر نظر بھی رکھے گا اور جہاں ضرورت پڑی وہاں مداخلت بھی کرے گا۔

تحریک انصاف کے حکومتی اراکین گزشتہ حکومت اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی اسی پالیسی پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے ڈالرز ادھار لے کر سٹیٹ بینک کے ذریعے مارکیٹ میں اسی کی فراہمی کو یقینی بنایا جس سے ڈالر کی قدر 102 سے 104 روپے کے درمیان رہی۔

چئیرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کے نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ طلب اور رسد اور مارکیٹ فورسز ایکسچینج ریٹ کا فیصلہ کرتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت یا سٹیٹ بینک ایکسچینج ریٹ میں مداخلت کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا بہت کم سٹیٹ بینک کی طرف سے مداخلت ہوتی ہے۔ مگر جب سٹیٹ بینک کہتا ہے تو عام عوام کو فروخت کم یا بالکل ختم کر دی جاتی ہے۔

ملک بوستان نے بتایا کہ ‘عوام عموما حج کے دنوں میں زیادہ ڈالر خریدتے ہیں۔ کل 6 ارب ڈالر کے کاروبار میں سے 4 ارب حج کے دنوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ جب کبھی مارکیٹ میں طلب شدت اختیار کرتی ہے تو منی چینجر مختلف حربے اپناتے ہیں جیسے اگر کسی کو ماہانہ 50 ہزار ڈالر چاہیے ہوں تو اس کو تمام رقم یکمشت دینے کی بجائے قسطوں میں دی جاتی ہے تا کہ طلب پر قابو پایا جا سکے۔’

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت