برطانوی والدین بچوں کو مسجد جانے سے کیوں روکنا چاہتے ہیں؟

برٹش جرنل آف ریلیجیس ایجوکیشن کے مطالعے کے مطابق 71 فیصد اساتذہ کا خیال ہے کہ بچوں کو مذہبی تعلیم سے ہٹانے کے لیے والدین کے پاس اختیار کو ختم کیا جانا چاہیے۔

تحقیق کنندگان ایسےواقعات کے بارے میں تسلسل سے سن رہے ہیں جن میں والدین اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم کے سلسلے میں مساجد کے دوروں سے روک رہے ہیں ۔(اے ایف پی)

برطانیہ میں مذہبی تعلیم کی مخالفت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث متعدد والدین نے اپنے بچوں کو مذہبی تعلیمی اداروں سے ہٹا لیا ہے۔ لیورپول ہوپ یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی والدین مذہبی سکولوں سے اپنے بچوں کو محض اس لیے ہٹا رہے ہیں کیوں کہ وہاں اسلام کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔

اس رجحان کا اثر زائل کرنے کے لیے کی گئی مذکورہ تحقیق میں شامل اساتذہ اس رویے کی مخالفت کرتے ہوئے والدین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں میں مذہبی تعلیم سے دوری کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔

تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر پانچ اساتذہ میں سے دو کو طلبہ کی جانب سے ایسی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک خاص مذہب کی تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے۔

450 سکول لیڈرز اور مذہبی تعلیمی اداروں (آر ای) کے سربراہان سے پوچھے گئے سوالات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اسلام کی تعلیم اس دست برداری کی بڑی وجہ ہے۔

ایسے ہی ایک استاد، جن کو مذہبی تعلیم کے حوالے سے بچوں کو مسجد کا دورہ کرانا تھا، انہوں نے بتایا کہ ’کئی والدین نے اپنے بچوں کو مساجد کے دورے سے روکنے کے لیے درخواستیں بھیجی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’جن طلبہ کو مذہبی تعلیم سے ہٹایا گیا ہے ان کو مختلف مذاہب، ان کے اقدار اور ثقافت کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برٹش جرنل آف ریلیجیس ایجوکیشن کے مطالعے کے مطابق 71 فیصد اساتذہ کا خیال ہے کہ بچوں کو مذہبی تعلیم سے ہٹانے کے لیے والدین کے پاس اختیار کو ختم کیا جانا چاہیے۔

تھرروک کونسل کی جانب سے جاری رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ایسسیکس شہر میں والدین بڑی تعداد میں اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم کا سبق لینے اور مساجد کے دوروں سے روک رہے ہیں۔

’ٹیل ماما‘ نامی تنظیم برطانیہ بھر میں مسلمانوں کے خلاف پیش آنے والے واقعات کا ریکارڈ جمع کرتی ہے اور اس کے ڈائریکٹر انعام عطا نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ برطانیہ میں اسلام مخالف رجحان تشویش ناک حد تک بڑھ چکا ہے۔

’ہم ایسے واقعات کے بارے میں تسلسل سے سن رہے ہیں جن میں والدین اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم کے سلسلے میں مساجد کے دوروں سے روک رہے ہیں اور وہ انہیں مساجد کے قریب پھٹکنے بھی نہیں دینا چاہتے۔‘

’ایسا گذشتہ پانچ برس سے ہو رہا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ معاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں جو یا تو اسلام سے خوف زدہ ہیں یا پھر اس مذہب سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں میں بھی ایسے خیالات پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے کثیرالثقافت معاشرے کے لیے خطرناک ہے جہاں مختلف برادریاں اکھٹے رہتی ہیں۔‘

برطانیہ میں 1944 اور 1988 ایجوکیشن ایکٹس کے ذریعے والدین کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم اور اجتماعی عبادت سے روک سکتے ہیں۔

ان ایکٹس کے مطابق والدین وجہ بتائے بغیر اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم کی چند یا تمام کلاسوں سے ہٹا سکتے ہیں۔

تاہم اساتذہ نے گذشتہ برس اپریل میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ والدین اپنے تعصب کے باعث بڑی تعداد میں اس حق کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم سے ہٹا رہے ہیں۔

نیشنل ایجوکیشن یونین کے اے ٹی ایل شعبے نے حکومت پر زور دیا ہے کہ والدین کے اس انتخاب کرنے کے اختیار کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے تاکہ تمام طلبہ دیگر مذاہب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور ان کا احترام کرنا سیکھ سکیں۔

اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اکثر شرکا کی یہی رائے ہے کہ والدین کی جانب سے ایک خاص مذہب یعنی اسلام کی تعلیم سے انتخابی طور پر اپنے بچوں کو ہٹانے کی وجہ ان کی اسلام سے عداوت اور دیگر مذاہب کے لیے برداشت کی کمی ہے۔

تاہم یہ تحقیق اپنے اختتامیے میں کہتی ہے کہ بلاشبہ اسلام اس کا واضح حدف ہے لیکن اس کی وجہ اسلام کے حوالے سے تعصب سے زیادہ اس مذہب کے بارے میں پائے جانے والی غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ