خیبر پختونخوا میں پولیو کیس: والدین کی جہالت یا اداروں کی غفلت؟

اس سال صرف خیبر پختونخوا میں ہی 26 بچے پولیو کا شکار ہو چکے ہیں جس کی ایک وجہ والدین کا بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے انکار ہے لیکن اداروں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ایمرجنسی آپریشن سنٹر کےکوآرڈ نیٹر کیپٹن (ریٹائرڈ) کامران افریدی کے مطابق 22 اپریل کو پولیو مہم کے دوران کچھ شرپسند عناصر کے اقدامات کی وجہ سے پروگرام کو نقصان پہنچا  (روئٹرز)

خیبرپختونخوا کے پولیو ایمرجنسی آپریشن سنٹر (ای او سی) نے صوبے کے مختلف علاقوں میں ایک ہی دن میں مزید پانچ بچوں کے پولیو کا شکار ہونے کی تصدیق کی ہے جس کے ساتھ ہی ملک میں رواں سال پولیو کیسز کی تعداد 32 ہوگئی ہے۔ اس سال صرف خیبر پختونخوا میں ہی 26 بچے پولیو کا شکار ہو چکے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ والدین کا بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے انکار کو قرار دیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ تو والدین کی جہالت یا لاعلمی ہے تو دوسری جانب محکموں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔  

ای او سی، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف، عالمی ادارہ صحت اور صوبائی حکومت کے اہلکاروں کا ایک ہی چھت تلے قائم مرکز ہے جو صوبے میں پولیو کی صورتحال کو مانیٹر کرتا ہے۔

اس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں سنٹر کے رابطہ کار کیپٹن (ریٹائرڈ) کامران افریدی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پولیو کا شکار ہونے والے بچوں میں سے دو کا تعلق صوبے کے جنوبی ضلع بنوں، ایک کا بنوں ہی سے متصل ضلع شمالی وزیرستان اورباقی دو کا تعلق ضلع تورغر سے ہے۔

کامران آفریدی کا کہنا تھا کہ جو بچے پولیو کا شکار ہوئے ان کا تعلق ان خاندانوں سے ہے جن کے والدین ان کو پولیو کے قطرے پلانے پر رضامند نہیں تھے اور اسی وجہ سے یہ بچے اس موذی مرض کا شکار ہوئے۔

کامران آفریدی کے مطابق حکومت اس مرض کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اب بھی ایسے والدین ہیں جو بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کرتے ہیں۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 22 اپریل کو پولیو مہم کے دوران کچھ شرپسند عناصر کے اقدامات کی وجہ سے پروگرام کو نقصان پہنچا لیکن والدین کو چاہیے کہ وہ منفی افواہوں پر کان نہ دھریں اور بچوں کو یہ دو قطرے ضرور پلائیں۔

یاد رہے کہ 22 اپریل کو چلائی جانے والی انسداد پولیو مہم میں مجموعی طورپر تین کروڑ 80 لاکھ بچوں کو یہ قطرے پلانے کا ہدف مقررکیا گیا تھا جس کے لیے مہم میں دو لاکھ 60 ہزارپولیو کارکن حصہ لے رہے تھے۔ اسی مہم کے دوران پشاور کے بعض علاقوں سے افواہوں نے جنم لیا تھا جس کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں بچوں کو ہسپتال پہنچایا گیا تھا جن کے بارے میں افواہ پھیلی تھی کہ ان کی حالت پولیو کے قطرے پینے کی وجہ سے خراب ہو گئی ہے۔ ان افواہوں کی وجہ سے اس مہم کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

انسداد پولیو کے لیے ’اینڈ پولیو‘ نامی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد وشمار کے مطابق رواں سال اب تک خیبر پختونخوا کے آباد شدہ اور قبائلی اضلاع میں 26 بچے، جبکہ پنجاب میں تین اور سندھ میں تین بچے پولیو کا شکار ہو چکے ہیں۔

رواں سال اپریل میں پاکستان میں سوشل میڈیا پر انسداد پولیو قطروں کے خلاف جاری منفی مہم کی بدولت بہت سارے بچے یہ قطرے پینے سے رہ گئے تھے اور حکومت پاکستان نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لوگوں کا نقطہ نظربدلنے کے پروگرام کے تحت گوگل، فیس بک اورٹوئٹر سے ایسے مواد کو ہٹانے کا کام شروع کیا ہے۔

وزیراعظم کے معاون برائے انسداد پولیو بابر بن عطا کے مطابق ایسے کچھ اکاوُنٹس بند بھی کیے گئے ہیں جو انسداد پولیو کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ 

پاکستان میں پولیو کے خلاف جاری اس کام میں حکومت پاکستان کو روٹری کلب، عالمی ادارہ صحت، بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاونڈیشن کی تکنیکی، مالی اورتربیتی مدد حاصل ہے۔

بنوں: خطرناک ترین ڈویژن

’اینڈ پولیو‘ ویب سائٹ پر ایک بیان میں بابر بن عطا نے کہا کہ بنوں ڈویژن پولیو وائرس کے لیے خطرناک ترین ہے کیونکہ پاکستان سے رپورٹ ہونے والے تمام کیسز میں 50 فیصد کیسز بنوں ڈویژن میں ہیں۔ اس لیے والدین کے لیے بے حد لازمی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے ضرور پلائیں۔

 نیشنل ایمرجنسی آپریشن سنٹر اسلام آباد سے جاری ہونے والے ایسے ہی ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بنوں میں پہلی بار 2008 میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی جس کی بعد بنوں اور شمالی وزیرستان میں 2014 میں بے شمار پولیو کیسز رپورٹ ہوئے۔

یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں پشاورمیں 24 جون کو ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد ضلع بنوں کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرڈاکٹر طاوس خان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور ان کی جگہ لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کے پراونشل کوآرڈینیٹر ڈاکٹر فہیم حسین کو نیا ڈی ایچ او تعینات کیا گیا تھا۔

اس اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے کی تھی اور اس میں بابر بن عطا اور صوبے کے چیف سیکرٹری نے بھی شرکت کی تھی۔

اجلاس میں ہونے  والی پیش رفت سے واقف ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس میں شریک اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے پولیو کے حوالے سے ان پر ڈالی جانے والی ذمہ داریوں کے جواب میں شکایات کے انبار لگائے تھے اورکہا تھا کہ کچھ اضلاع میں محکمہ صحت کی جانب سے تعینات عملہ اور ڈی ایچ اوز ٹھیک طریقے سے اپنا کام نہیں کررہے۔

ذرائع کے مطابق اسی اجلاس میں ایک اہم ضلعے کے ڈی سی نے یہ شکایت کی تھی کہ انہیں رواں سال اپریل میں چلائی جانے والی انسداد پولیو مہم کی حفاظت کے لیے منطورشدہ 2400 میں سے صرف 1100 پولیس اہلکار ملے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اب کے بعد جب بھی کسی ضلعے میں انسداد پولیو کی مہم چلائی جائے تو اس سے پہلے تحفظ کے لیے سیکورٹی کا تجزیہ بھی ہونا چاہیئے اور سویلین انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ ہرمہم سے پہلے ضرور اپنی رپورٹس مرتب کرکے حکومت کو دیں تاکہ ان کی روشنی میں مہمات کی منصوبہ بندی کی جاسکے اور کسی قسم کے خطرے سے نمٹا جاسکے۔

بعض سرکاری حکام نے انسداد پولیو مہم میں شراکت دار عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے تھے کہ یہ ادارے اس کام میں شریک تو کہلاتے ہیں لیکن ان کے عملے کو اس حوالے سے اس طرح قابل احتساب نہیں بنایا گیا جس طرح سرکاری لوگوں کو بنایا جاتا ہے یعنی ان بین الاقوامی اداروں کا عملہ سزا و جزا کے عمل سے باہر رہ جاتا ہے۔

دوسری جانب رابطے پر ان بین الاقوامی اداروں کے دو اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ یہ ادارے اپنے مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے اپنا پورا کام کررہے ہیں اور ان کے ہاں احتساب کا ایک بڑا موثر نظام موجود ہے جہاں پرغفلت کے مرتکبین کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپریل میں چلائی جانے والی انسداد پولیو کی مہمات کے دوران سرکاری ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث وہ ڈیوٹی کے لیے دستیاب نہ تھےاور جب بھی سرکاری عملہ ڈیوٹی کے لیے دستیاب نہ ہو تو ان بین الاقوامی اداروں کا عملہ اس کمی کو پورا کرتا ہے۔

سیورج میں پولیو وائرس کی موجودگی

اپریل میں قومی ایمرجنسی آپریشن سنٹر اسلام آباد سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ لاہور، راولپنڈی، پشاور، مردان، بنوں، وزیرستان، قلعہ عبداللہ، کراچی، حیدرآباد، قمبر اورسکھر کے گٹروں کے پانی میں پولیو کے وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی اورگٹر کے پانی میں اس وائرس کی موجودگی خطرے کی گھنٹی ہے۔

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ گٹر کے پانی میں وائرس کی موجودگی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ان شہروں میں بچوں کی ایک بڑی تعداد میں قوت مدافعت مطلوبہ معیار سے کم ہے اور پولیو کے قطرے نہ پینے والے بچے نہ صرف اپنے لیے خطرہ ہیں بلکہ وائرس کے پھیلاو سے دوسرے بچوں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔   

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت