افغان پناہ گزین مزید ایک سال پاکستان میں رہ سکتے ہیں

پاکستانی حکومت کے اس فیصلے سے پریشانی اور غیریقینی کی صورتحال سے دوچار افغان پناہ گزینوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا، ترجمان یو این ایچ سی آر قیصر آفریدی

پاکستان میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی تعداد  14 لاکھ ہے لیکن بہت سارے افغان ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو پناہ گزین کے طور پر رجسٹر نہیں کروایا  ہے۔ (فائل: اے ایف پی)

پاکستان میں وفاقی کابینہ نے اُن افغان پناہ گزینوں کے قیام میں مزید ایک سال کی توسیع دے دی ہے جو پی او آر یعنی پروف آف رجسٹریشن کارڈز کے حامل ہوں جبکہ افغان سٹیزن کارڈز رکھنے والے افغانوں کی رہائش میں رواں سال 31 اکتوبر تک کے لیے توسیع کی گئی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین یو این ایچ سی آر نے پاکستانی حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پریشانی اور غیریقینی کی صورتحال سے دوچار افغان مہاجرین کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔

پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا ادارہ ایک سال کی مزید توسیع کے اس فیصلے اور افغانوں کی بہترین مہمانداری کرنے پر پاکستانی حکومت اور عوام کا شکرگزار ہے، جو چار دہائیوں سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یواین ایچ سی آر پاکستان کو ان پریشان مہاجرین کے لیے ایک ایسا میزبان تصور کرتی ہے جس کی مثال دی جاسکتی ہے اور کہا کہ ان کا ادارہ اس بہترین کردار کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت جاری رکھے گا۔

  یوں تو پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد ایک اعشاریہ چار ملین یعنی 14 لاکھ ہے لیکن بہت سارے افغان ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو مہاجر کے طور پر رجسٹر نہیں کروایا۔ ایک اندازے کے مطابق ان رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغانوں کی مجموعی تعداد 40 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان نے سال 2017 میں ایسے آٹھ لاکھ افغانوں کو، جو مہاجر کے طور پر پروف آف رجسٹریشن کے حامل نہیں ہیں، کو افغان سٹیزن کارڈ کے ذریعے رجسٹر کیا تھا۔

پاکستان کی وزارت برائے سٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے سہ فریقی معاہدے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پی او آر کارڈز کے حامل افغانوں کو مزید ایک سال تک قیام کی منظوری دی ہے جبکہ افغان سٹیزن کارڈز کے حامل لوگوں کے لیے مدتِ قیام میں رواں سال کے اکتوبر کی آخری یعنی 31 تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ سہ فریقی کمیشن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں افغانستان، پاکستان اور یو این ایچ سی آر کے حکام شامل ہوتے ہیں اور یہ ایک طرح کی گورننگ باڈی کا کام کرتی ہے۔ پاکستان میں سیفران جبکہ افغانستان میں مہاجرین کے وزیر اس کمیشن کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں جبکہ دونوں ملکوں میں یو این ایچ سی آر کے حکام اس کمیشن کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کا آخری اجلاس چند روز قبل ہی اسلام آباد میں ہوا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قیصر آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں غیرملکی مہاجرین کو پناہ دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں پر 14 لاکھ افغان مہاجرین زندگی گزار رہے ہیں جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک ترکی ہے جہاں پر 37 لاکھ مہاجر رہائش پذیر ہیں۔

اسلام آباد میں 20 جون کو مہاجرین کے عالمی دن کی مناسبت سے ہونے والی تقریب سے خطاب کے دوران یو این ایچ سی آر کے نمائندوں نے بتایا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں 85 فیصد مہاجرین ترقی پذیر ممالک میں آباد ہیں جبکہ صرف 15 فی صد ترقی یافتہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر سیفران شہریار آفریدی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک 85 فیصد مہاجرین کا بوجھ اٹھارہے ہیں خصوصاً پاکستان، جسے خود بھی مالی بحران کا سامنا ہے، گذشتہ چار دہائیوں سے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔

کابینہ اجلاس کے بعد وزارت سیفران سے جاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کابینہ نے توسیع کے ساتھ ساتھ 18 جون کو اسلام آباد میں اس حوالے سے ہونے والے سہ فریقی اجلاس کے اعلامیے کی بھی منظوری دی۔ مذکورہ سہ فریقی اجلاس میں پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے وفود نے شرکت کی تھی، جس کے اعلامیے میں 40 سال تک اتنی بڑی تعداد میں افغانوں کی مہمانداری کرنے پر اس کے کردار کی تعریف کی گئی تھی۔ اس اجلاس میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ ان افغانوں کو رضاکارانہ اور باعزت طریقے سے وطن واپس لوٹنے کے قابل بنایا جائے گا۔ سہ فریقی اجلاس کے اختتامی بیان میں رضاکارانہ وطن واپس لوٹنے والوں کے لیے رقم میں کمی پر تشویش ظاہر کی گئی تھی اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس رقم میں اضافہ کیا جائے۔

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ سال 2002 سے اب تک 43 لاکھ افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس لوٹ چکے ہیں جو کہ یو این ایچ سی آر کی تاریخ میں سب سے بڑی رضاکارانہ واپسی سمجھی جارہی ہے۔ ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ افغان سال 2016 میں اُس وقت واپس وطن لوٹے، جب واپس جانے والے ہر افغان کے لیے گرانٹ 200 ڈالر سے بڑھا کر 400 ڈالر کی گئی، تاہم بعد ازاں سال 2017 میں یہ گرانٹ واپس کم کرکے 200 ڈالر فی کس کردی گئی۔ پاکستان کی جانب سے فی کس گرانٹ کو واپس 400 ڈالر کرنے کے لیے کوششیں بھی کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ افغان وطن واپس جاسکیں۔    

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان