امریکہ: بغیر چابی والی کاریں اموات کی وجہ بننے لگیں

2006 سے امریکہ میں گاڑی کا انجن بند نہ کرنے کے نتیجے میں 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں گذشتہ چھ ماہ میں ہونے والی سات ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔

2006 سے امریکہ میں گاڑی کا انجن بند نہ کرنے کے نتیجے میں 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں گذشتہ چھ ماہ میں ہونے والی سات ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔

امریکی ریاست فلوریڈا میں سابق یونیورسٹی چانسلر شیری پینی اور ان کے ریٹائرڈ ماہر طبیعات خاوند جیمز لیونگ سٹون کے لیے ٹویوٹا ایوالون 2017 ایک معقول خریداری تھی۔

اس ماڈل کی کار پہلے بھی شیری پینی اور ان کے خاوند کے پاس تھی لیکن اس کے نئے ورژن میں حساس برقی آلات لگائے گئے تھے اور دوسری جدید خصوصیات بھی تھیں۔

لیونگ سٹون کی بیٹی سوزین، شیری پینی کی بات کو یاد کرتی ہیں جب انہوں نے کہا تھا کہ ’ایوالون بہت محفوظ ہے۔‘

لیکن گذشتہ ماہ ایوالون کی ان خصوصیات میں سے ایک مہلک ثابت ہوئی جب 81 سالہ پینی اور 88 سالہ لیونگ سٹون فلوریڈا کے شہر ’ساراسوٹا‘ میں واقع اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔

مقامی میڈیکل ایگزامنر کی جانب سے کیے گئے ٹیسٹوں کی ابتدائی رپورٹس کے مطابق وہ زہریلی گیس کاربن مونوآکسائیڈ میں سانس لینے کے باعث ہلاک ہوئے۔

سوزین لیونگ سٹون نے کہا کہ ان سے کوتاہی ہوئی اور انہوں نے کار کو اپنے گھر سے ملحق گیراج میں کھڑا کردیا۔ گاڑی کا چابی کے بغیر سٹارٹ ہو جانے والا انجن بند نہیں تھا جس کی وجہ سے انجن چلتا رہا۔

ان اموات نے نقصان کے اس خطرے کو نمایاں کیا ہے جس کے لیے قواعد و ضوابط اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ یہ نقصان اُس صورت میں ہوتا ہے جب بعض کار مالکان خاص طور پر معمر افراد اپنی ایسی گاڑیوں میں وہ انجن بند کرنا بھول جاتے ہیں جسے بند کرنے کے لیے چابی گھمانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

خبروں، مقدمات، پولیس، محکمہ فائربریگیڈ، پولیس کے ریکارڈ اور متحرک گروپوں کی تحقیق کے مطابق 2006 سے امریکہ میں گاڑی کا انجن بند نہ کرنے کے نتیجے میں 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں گذشتہ چھ ماہ میں ہونے والی سات ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ بعض کے دماغ کو نقصان پہنچا۔  

پینی اور ان کے شوہر کی موت کو کچھ اس وجہ سے بھی زیادہ اہمیت دی گئی کہ انہوں نے تعلیم اور سائنس کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رکھی تھیں۔

ریٹائر ہوکر فلوریڈا منتقل ہونے سے قبل پینی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے بوسٹن میں یونیورسٹی آف میساچوسٹس میں مستقل چانسلر کے فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے اسی یونیورسٹی سمیت سٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک کے نظام میں بھی قائدانہ کردار ادا کیا۔

لیونگ سٹون متعدد خصوصیات کے ماہر تھے۔ انہوں نے جنرل الیکٹرک میں محقق کی حیثیت سے کئی دہائیوں تک کام کیا اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بھی پڑھایا۔

اس جوڑے نے خواتین کے حقوق کی علمبردار مارتھا رائیٹ پر کتاب پر بھی مل کر کام کیا۔ مارتھا رائیٹ جیمز لیونگ سٹون کی پر نانی تھیں۔

سوزین لیونگ سٹون کہتی ہیں ’یہ بہت قابل لوگ تھے۔ اس صورت حال کا کسی کو بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

نیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن، جو کاروں کی صنعت کی نگرانی کرتی ہے، نے 2011 میں چابی کے بغیر سٹارٹ ہونے والی گاڑیوں کے لیے ایک ضابطہ تجویز کیا، جس کے تحت ضروری قرار دیا گیا تھا کہ کار سے باہر نکلنے والے ڈرائیوروں کو ایک سیکنڈ کی صوتی وارننگ سنائی دے کہ وہ گاڑی کا انجن بند کر دیں۔

نیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن کے اندازے کے مطابق یہ فیچر کار ساز صنعت کو سالانہ پانچ لاکھ ڈالر میں پڑتا لیکن صنعت کی جانب سے لابنگ کی وجہ سے یہ تجویز التوا کا شکار ہوگئی۔

حال ہی میں جب نیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن کو اس معاملے پر تبصرے کے لیے کہا گیا تو اس نے پہلے سے موجود رہنما اصول دہرا دیے۔ دوسری جانب کار مالکان کی توجہ حفاظتی ویڈیو کی طرف دلائی گئی جو چابی کے بغیر سٹارٹ ہونے والی گاڑی کے استعمال اور اس کے ممکنہ خطرات کے بارے میں ہے۔

چابی کے بغیر سٹارٹ ہونے والی کاروں کے بعض ماڈلز میں آواز، گاڑی کے اندر یا باہر لائٹوں کا ایسا نظام موجود ہے جو دروازہ کھلا رہ جانے یا انجن چلتا ہونے کی صورت میں وارننگ دیتا ہے۔

مثال کے طور پر ٹویوٹا ایوالون اس طرح سے تیار کی گئی ہے کہ وہ ایسے حالات میں ایک بار کار کے اندر اور تین مرتبہ اس سے باہر صوتی وارننگ دیتی ہے، لیکن پینی اور لیونگ سٹون کی موت سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کی وارننگ ہمیشہ کافی نہیں ہوتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوزین لیونگ سٹون کے مطابق ان کے خیال میں وہ کوئی اور گاڑی خریدتے تو اب زندہ ہوتے۔

اس مضمون کے لیے رابطے پر کار ساز ادارے نے کہا کہ ٹویوٹا کی گاڑیاں تمام حفاظتی معیارات پورے کرتی ہیں یا ان سے بھی بہتر ہیں۔

گذشتہ برس اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک تحقیق میں چابی کے بغیر سٹارٹ ہونے والی گاڑیوں کے حوالے سے خطرے اور اس حوالے سے حفاظتی نظام کے غیر موثر ہونے پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

اس کے فوراً بعد سینیٹر رچرڈ بلیومنتھال نے ہائی وے سیفٹی ایجنسی میں ہونے والی ایک سماعت میں مطالبہ کیا کہ وہ اپنے مجوزہ ضابطے کی منظوری دے اور کار ساز اداروں کو پابند بنایا جائے کہ کاروں میں ایسا فیچر متعارف کروائیں کہ  استعمال میں نہ ہونے کی صورت میں ان کا انجن مقررہ وقت کے بعد خود بخود بند ہو جائے۔ اس سال کے آغاز میں  بلیومنتھال نے اس ضمن میں ایک مسودہ قانون بھی متعارف کرایا ہے۔

’پارک اِٹ ایکٹ‘ کے نام سے سینیٹ کے لیے اس مسودہ قانون کی کمیٹی میں سماعت کی تاریخ طے ہونا باقی ہے۔

اس ماہ ایوان کے ارکان کے ایک گروپ نے جس میں تین ڈیموکریٹ اور ایک ری پبلکن رکن شامل ہے، ایک ملتا جلتا بل توانائی اور تجارت سے متعلق کمیٹی میں پیش کیا ہے۔

کاربن مونو آکسائیڈ سے ہونے والی اموات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایوان میں بل متعارف کرانے والے نمائندے جان سکاکوسکی نے کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی ان اموات کو روکے۔‘

بعض کار ساز اداروں نے 2015 سے چابی کے بغیر چلنے والی گاڑیوں کا انجن خود کار نظام کے تحت بند ہونے (آٹو میٹک شٹ آف) کا فیچر متعارف کرا دیا ہے۔

جنرل موٹرز کے مطابق انہوں نے بھی  کچھ گاڑیوں میں پانچ ڈالر قیمت کا آٹو میٹک شٹ آف کا فیچر شامل کر دیا ہے۔ ٹویوٹا کمپنی جس کی گاڑیاں جانی نقصان ہونے والے نصف حادثات کا شکار ہوئی ہیں، نے بھی 2020 سے ’کی لیس‘ یعنی بغیر چابی والی گاڑیاں متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے جن میں آٹومیٹک شٹ آف کا فنکشن بھی موجود ہو گا۔ کمپنی کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کیا وہ کانگریس کی اس قانون سازی کی بھی حمایت کرے گی۔

ہونڈائی کمپنی کے مطابق وہ اس قانون کی حمایت کرتی ہے اور اپنی گاڑیوں میں شٹ آف ٹیکنالوجی کا اضافہ کرے گی لیکن ایسا کرنے کے لیے کسی مدت کا اعلان نہیں کیا گیا۔

فیٹ چریسلر کے ایک نمائندے کے مطابق کمپنی اس قانون کا جائزہ لے رہی ہے لیکن ایسے کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں جس میں چابی والی گاڑیوں کے زیادہ حادثات کا شکار ہونے کی تصدیق ہو سکے۔ ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ آٹومیٹک شٹ آف کے کچھ غیر ارادی منفی نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔

نسان، ڈیالمر، مزدا اور سبارو  سمیت کئی کارساز کمپنیوں نے اس قانون سازی پر کوئی بھی موقف دینے سے انکار کر دیا۔ گو کہ لازمی قرار دیے جانے حفاظتی انتظامات موجود نہیں لیکن پھر بھی بغیر چابی والی لاکھوں گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں۔

کاروں کی معلومات رکھنے والی ویب سائٹ ایڈمندز کے مطابق یہ فیچر ہر سال مینوفیکچر کی جانے والی کاروں کی نصف تعداد میں موجود ہے۔

تاہم سوزین کہتی ہیں: ’یہ کاریں شاید سات، آٹھ یا دس سال میں سڑکوں پر ہوں گی لیکن ان لوگوں کا کیا ہوگا جو اس وجہ سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا