اے این ایف اور ’پھیرنی کے پھیر‘

میاں نواز شریف نے بہت اچھے کام بھی کیے ہوں گے مگر انہوں نے ماضی میں جو کچھ کر دیا ہے وہ شاید آج اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

(تصویر: اے این ایف ویب سائٹ)

میرا تعلق ضلع چکوال کے ایک چھوٹے سے گاوں سے ہے۔ کچھ لوگ ہمیں ’پینڈو‘ کہتے ہیں، شاید ہوں بھی مگر ہم پینڈو لوگوں کے پاس الفاظ کے ایسے ذخیرے ہوتے ہیں جو شاید دیگر زبانوں میں نہ ہوں۔ جب بھی کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہو رہی ہو یا پھر کسی کے ساتھ کچھ ایسا ہو رہا جو اس نے ماضی میں کیا تو ہماری اماں عام طور پر ایک جملہ استعمال کرتی ہیں کہ ’مینڈا بال ہی پھیرنی ناں پھیر اے، اج حس تے وے کل کسی ہور تے ہوسی۔‘

انگریزی میں شاید What goes around comes around اور اردو میں کہا جا سکتا ہے کہ ’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔‘ تو آج کل جو مسلم لیگ ن کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ’پھیرنی کا پھیر‘ ہے جو ماضی میں کسی دوسری جماعت یا شخصیت کے ساتھ وہ کر چکے ہیں۔

پھر جہاں نیب بظاہر بےبس ہو جاتی ہے وہاں اینٹی نارکاٹکس فورس کا بھی مبینہ سیاسی کردار دکھائی دیتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک اور رہنما حنیف عباسی بھی اے این ایف کے چنگل میں 2012 سے ایفیڈرین کوٹے کے ایک مقدمے میں پھنسے ہوئے ہیں جسے مسلم لیگ ’سیاسی دشمنی‘ قرار دیتی ہے۔ اے این ایف تاہم کسی سیاسی کردار سے مکمل انکار کرتی ہے۔

اب سابق وزیر قانون اور مسلم لیگ ن پنجاب چیپٹر کے صدر رانا ثنااللہ کی گرفتاری پر جماعت کے قائدین کی تشویش بھی قدرتی ہے۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ رانا ثنااللہ کی گاڑی سے 15 کلو ہیروئن برآمد ہوئی جس کی مالیت 15 سے 20 کروڑ روپے بنتی ہے۔ منگل کو منظر عام پر آنے والی ایف آئی آر کے مطابق بھی ان کی گاڑی سے 15 کلو ہیروئن برآمد ہوئی۔ 

پاکستان میں منشیات کے حوالے سے رائج قانون ’انسداد نشہ آور مواد ایکٹ، 1997‘ کی شق 9 سی کے مطابق ’اگر نشہ آور دوا، منقلب نفسی [سائیکوٹراپک] یا کنٹرولڈ مواد کی مقدار شق [بی] میں مخصوص کردہ حد سے بڑھ جائے تو موت، عمر قید یا 14 سال کی قید اور دس لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے، تاہم اگر مقدار دس کلو گرام سے زیادہ ہو تو سزا عمر قید سے کم نہ ہو گی۔‘

اسی طرح شق نمبر 10 اور 11 میں نشہ آور اشیا کے رکھنے کے حوالے سے سزا کچھ اس طرح سے تجویز کی گئی ہے کہ ’جو سیکشن 10 کی دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ 25 سال تک کی قید لیکن کم سے کم دس سال کی قید اور کم سے کم دس لاکھ روپے تک جرمانے کا مستحق ہو گا۔‘

اگر مندرجہ بالا سزائوں کو دیکھیں تو مسلم لیگ ن کی قیادت کی پریشانی سمجھ آتی ہے کیونکہ رانا ثنااللہ پر 15 کلو گرام ہیروئن رکھنے کا الزام ہے۔ اسے وقت کی ستم ظریفی یا ماں جی کے بقول ’پھیرنی کے پھیر‘ کہیں کہ مسلم لیگ ن کے دوسرے دور حکومت میں لاہور کے مال روڈ پر اے این ایف اہلکاروں کی جانب سے ایک چھاپہ مارا جاتا ہے اور ایک صحافی کو 20 کلو چرس رکھنے کے جرم میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

اس صحافی کا نام رحمت شاہ آفریدی تھا جو کہ اس وقت انگریزی کے مقبول اخبار دی فرنٹیئر پوسٹ کے ایڈیٹر ان چیف تھے۔ 25 مئی 2008 کو انہیں خرابی صحت کی وجہ سے نو سال بعد قید سے پرول پر رہا کیا جاتا ہے۔ ایک اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وہ جہاں بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں وہاں یہ بھی بتاتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے اس وقت ایجنسیوں سے مل کر رحمت شاہ آفریدی پر دباؤ ڈالا کہ وہ آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف منشیات کے کاروبار میں وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ ایسا کرنے پر انہیں رہائی مل سکتی تھی۔ رحمت شاہ آفریدی کے بقول انہوں نے ان دونوں پیش کشیں ٹھکرا دیں جس کے نتیجے میں انہیں 27 جون 2001 کو سزائے موت کا پروانہ تھما دیا گیا مگر لاہور کے ڈویژنل بینچ نے ان کی 2004 میں سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔

میاں نواز شریف نے بہت اچھے کام بھی کیے ہوں گے مگر انہوں نے ماضی میں جو کچھ کر دیا ہے وہ شاید آج اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ رحمت شاہ آفریدی نے نواز شریف کو کوئی بددعا دی یا یہ سب امر ربی ہے یا کسی سازش کا پیش خیمہ مگر رانا ثنااللہ کی منشیات رکھنے کے الزام میں گرفتاری کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن’پھیرنی کے پھیر‘ ضرور ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ