ٹوور ڈی خنجراب: جب سائیکل سواروں نے مجھے غلط ثابت کیا

جہاں فور وہیل گاڑیاں نہیں چڑھ پا رہی تھیں وہاں سائیکلسٹ چلتے چلے جا رہے تھے۔ سائیکلوں کی زنجیریں ٹوٹیں، گیئروں نے صحیح سے کام کرنا چھوڑ دیا، کچھ سوار گر پڑے لیکن کسی نے بھی ہمت نہیں ہاری اور کچھ ہی دیر میں سب فنشنگ لائن پر دکھائی دیے۔

گلگت بلتستان میں تقریباً 16 ہزار فٹ کی بلندی پر گذشتہ ہفتے ایک سائیکل ریس کا انعقاد ہوا، جسے ’ٹوور ڈی خنجراب‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس ریس کی کوریج کرنے کے لیے میں بھی 15 گھنٹے کا سفر طے کرکے گلگت پہنچا۔ بل کھاتی سڑکوں، بہتے پانی اور بلند پہاڑوں کے بیچوں بیچ گاڑی میں لڈو کھیلتے کاغان، ناران اور بابو سر ٹاپ سے ہوتے ہوئے ہم شام میں گلگت پہنچے جہاں سے صبح ٹوور ڈی خنجراب کے پہلے مرحلے میں سائیکل سواروں نے راکا پوشی ویو پوائنٹ تک جانا تھا۔

گلگت شہر سے قراقرم ہائی وے تک تمام سائیکلسٹ ساتھ ساتھ رہے جس کا مطلب سڑک کنارے کھڑے لوگوں کو ’عزت‘ دینا تھا اور اس کے بعد جیسے ہی ایک خاص مقام پر آنے کے بعد ریس کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تو ایسا لگا جیسے ریس سائیکل سواروں کے درمیان نہیں بلکہ منتظمین کے درمیان ہے۔

مجھ سمیت ہر فوٹوگرافر اور ویڈیو بنانے والا یہی فریاد کرتا رہا کہ ایک ’اچھا شاٹ‘ بنانے دیں۔ خود میں نے جب واپس آنے کے بعد تصاویر دیکھیں تو تقریباً ہر تصویر میں دو گاڑیاں اور دو موٹر سائیکلیں ضرور تھیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ منتظمین اور حکام ہماری بات سننے کو تیار تھے اور انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ریس کے بقیہ دنوں میں ایسا نہ ہو۔

اگلے روز ایک کے بعد ایک سائیکلسٹ کو جانے دیا جا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میں نے وہاں موجود دیگر ساتھیوں سے کہا کہ ’یہ تو بہت ہی بورنگ ریس ہوگی‘ لیکن ان سائیکلسٹ نے مجھے غلط ثابت کیا۔

دوسرے مرحلے میں سائیکلسٹ نے ’دوئیکر‘ یعنی ایگلز نیسٹ تک سائیکل چلا کر جانا تھا۔ یہ جہاں میرے لیے حیران کن تھا وہیں بہت سے سائیکلسٹ بھی یہی کہتے دکھائی دیے کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ یہ ٹریک ایسا ہوگا۔

ایک عجیب منظر تھا، جہاں فور وہیل گاڑیاں نہیں چڑھ پا رہی تھیں وہاں سائیکلسٹ چلتے چلے جا رہے تھے۔ سائیکلوں کی زنجیریں ٹوٹیں، گیئروں نے صحیح سے کام کرنا چھوڑ دیا، کچھ سوار گر پڑے لیکن کسی بھی سائیکلسٹ نے ہمت نہیں ہاری اور کچھ ہی دیر میں سب فنشنگ لائن پر دکھائی دیے۔

اُس وقت مجھے ان سائیکلسٹ کو دیکھ کر جتنی خوشی ہوئی اتنا ہی مجھے انٹرنیٹ نہ ہونے پر افسوس بھی ہوا، کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی اس وقت ان سائیکلسٹ کا یہ کارنامہ دنیا کو نہیں دکھا پا رہا تھا۔

وہاں پانچ دن قیام کے دوران نہ تو موبائل نیٹ ورک دستیاب تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ، یہی وجہ ہے کہ آپ یہ تحریر ریس ختم ہونے کے دو دن بعد پڑھ رہے ہیں۔

ویسے اتنے دن انٹرنیٹ کے بغیر گزارنے کے بعد میں آرام سے نوکیا کا 3310 موبائل خرید سکتا ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میرے سمارٹ فون کو اب انٹرنیٹ کی عادت نہیں رہی۔

خیر ریس جاری رہی اور تقریباً چار ہزار نو سو فٹ کی بلندی سے شروع ہونے والی اس ریس کا اختتام 16 ہزار فٹ کی بلندی پر اُس مقام پر ہوا جسے خنجراب پاس کہا جاتا ہے۔

شدید سردی، تیز ہواؤں اور آکسیجن کی کمی کے باوجود وہاں پہنچنے والے سائیکلسٹ داد کے مستحق ہیں۔ جس قسم کی ہمت اور جذبے کا مظاہرہ انہوں نے کیا، اسے دیکھ کر تو اس ایونٹ کا کامیاب ہونا یقینی لگتا ہے لیکن منتظمین اور حکام اگر واقعی اسے کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو انہیں کچھ اقدامات ضرور اٹھانے ہوں گے اور وہ یقیناً جانتے ہیں کہ انہیں ’ٹوور ڈی خنجراب‘ کے لیے کیا کرنا ہے۔۔!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ