ایرانی خواتین پر ظلم: سابق شہزادے کی بیٹی چیخ اٹھیں

یونیورسٹیوں میں 60 فی صد سے زیادہ تعداد ہونے کے باوجود ایرانی خواتین کو یونیورسٹیوں میں صرف چند مضامین پڑھنے کی اجازت ہے۔

ایران ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ گئے وقتوں میں خواتین پر سخت پابندیاں نہیں ہوا کرتی تھیں(اے ایف پی)

سرراہ کوڑے کھاتی، مالی طور پر تباہ حال اور سماج سے دھتکاری ہوئی، یہ میرے ملک ایران میں خواتین کی روزمرہ زندگی کی ایک جھلک ہے۔

ایران کی عورت، وہ مخلوق جو اپنے ملک کی حکومت کے سامنے مردوں سے شدید کم تر ہے۔ روزانہ ہی یہ تلخ حقیقت نت نئی اذیتوں، تکلیفوں، پابندیوں اور توہین آمیز ناروا سلوک کی ان داستانوں سے تقویت پاتی ہے جو ہم تک کبھی پہنچ بھی نہیں سکتیں۔

ان سنی کہانیوں کی اس فہرست میں سب سے تکلیف دہ شاید وہ ہوں جو نوعمر بچیوں سے ناروا سلوک کے بارے میں ہیں۔

بعض نو برس جیسی چھوٹی عمر کی بچیوں کو ایسے مردوں سے شادی کرنا پڑتی ہے جو عمر میں ان سے کئی دہائیاں بڑے ہوتے ہیں۔ جب میں ان مظالم کے بارے میں سنتی ہوں تو میں کچھ بھی نہیں کر پاتی لیکن مجھے اپنی چھوٹی بہن فرح کا خیال آ جاتا ہے۔

فرح کی عمر 15 سال ہے۔ وہ ہنستی کھیلتی، بے فکر، پھرتیلی، خوب صورت اور آزاد لڑکی ہے۔ (اگرچہ ہر نوجوان لڑکی کی طرح وہ میرے استعمال کیے گئے لفظ ’آزاد‘ پر اپنے تحفظات کا اظہار کر سکتی ہے، کیوں کہ اپنی حدود سے باہر نکلنے کے لیے امی سے جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے)۔

فرح کا نام ہماری دادی اماں کے نام پر رکھا گیا تھا اور وہ اپنے جوشیلے پن میں بالکل انہی پر گئی ہے۔ میں یہ بات بخوبی جانتی ہوں کہ وہ اپنی قوتوں کو بہتر انداز میں استعمال کر سکتی ہے لیکن یہ سوچنا بھی تکلیف دہ ہے کہ اس کی تمام تر صلاحیتں ایک ایسا نظام چھین لے جو اسے ہرگز کسی قابل نہیں سمجھتا۔

میرے لیے اس کی چھوٹی عمر میں شادی کیے جانے کا تصور بھی محال ہے۔ ایسا وقت کہ جب وہ جوان ہونے کے مرحلوں سے گزر رہی ہے، ابھی تو اسے جذباتی اور جسمانی لحاظ سے بہت سی تبدیلیوں کا سامنا کرنا ہے۔

فرح کو اس کے دوست پسند کرتے ہیں۔ اس کے پاس حوصلہ افزائی کرنے والے استاد ہیں، کامیاب ہونے کے لیے اس کے پاس موقع ہے۔ ذرا تصور کریں اگر معاشرہ اسے یوں پرورش پانے کا موقع فراہم نہ کرتا، اسے جبری طور پر برقع اوڑھنے پر مجبور کیا جاتا، اس کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے رہتے تو پھر اس کی زندگی کیا رخ اختیار کرتی؟

فرح ایسے زمانے میں بڑی ہو رہی ہے جب مغرب میں خواتین مردوں کے برابر حقوق پانے کے راستے میں موجود بچی کچی رکاوٹوں کو بھی دور کررہی ہیں۔ جب مغرب میں ترقی کا یہ سفر جاری ہے تو ایسے میں ضروری ہے کہ ایران کی ان بہادرعورتوں کی بات بھی کی جائے جو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان طاقت ور اور قابل فخر خواتین کو قانون، معاشی عدم انصاف اور سماجی پابندیوں کے ذریعے جکڑ لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 2018 میں عالمی اقتصادی فورم کی جاری کردہ  گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق صنفی مساوات میں دنیا کی 149 اقوام میں ایران کا 142 واں نمبر ہے۔

ایرانی خواتین کو طلاق اور وراثت میں برابر حصے کے حق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ایک شادی شدہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کہیں جا نہیں سکتی۔ دفاتر میں نوکری کے دوران بھی انہیں مردوں کے برابر تنخواہیں یا عہدے نہیں ملتے۔

حد تو یہ ہے کہ ایرانی خواتین کو یونیورسٹیوں میں صرف چند مضامین پڑھنے کی اجازت ہے اور وہ ان کے سوا دوسرے کوئی مضامین نہیں پڑھ سکتیں۔ حالانکہ یونیورسٹیوں میں ان کی تعداد 60 فی صد سے زیادہ ہے جو مرد طلبہ سے یقینا زیادہ ہے۔

فرح کا امی سے ایک الگ ہی تعلق ہے۔ میں اور دوسری بہن ایمان، ہم تو بڑی ہو چکی ہیں لیکن اس سے امی کو خاص پیار ہے۔اگر فرح ایران میں پل رہی ہوتی تو شاید اس برس وہ اس مادرانہ شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتی۔

یہ بات میں اس لیے سوچ سکتی ہوں کیوں کہ وہاں خواتین کے لیے طبی سہولتوں کا فقدان ہے اور ان پر کوئی بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس سال امی کے بریسٹ کینسر کی تشخیص کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ ایران میں خواتین کی صحت کا نظام کس قدر بے حال ہے۔ انہوں نے اس مہلک مرض کے بارے میں آگہی کے لیے ایک مہم بھی چلائی۔

ہر کسی کی ایک کہانی ہوتی ہے لیکن ایران میں رہنے والی خواتین کی کہانیاں شدید تکلیف دہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہ مجھے یہ بتاتی ہیں کہ انہیں کن پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سے کیسی بدسلوکی روا رکھی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔

’اخلاقی‘ پولیس خواتین کو بلاوجہ تنگ کرتی ہے اور انہیں ملازمتیں دینے سے اس لیے انکار کیا جاتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے ان کے خاوندوں کے ’وقار‘ کی توہین ہوسکتی ہے۔

لیکن ایران ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ گئے وقتوں میں خواتین پر ایسی پابندیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے میرے دادا اور پردادا نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی تھیں۔

خواتین کو بڑے پیمانے پر حقوق دیے گئے تھے اور ان کا تحفظ بھی کیا جاتا تھا۔ ان کی دور رس سوچ نے خواتین کی ایک پوری نسل کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ان میں سے بہت سی خواتین نے 1967 اور 1975 میں فیملی پروٹیکشن لا کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کی طرف ایک اہم قدم تھا۔

ان قوانین کے تحت مردوں کی ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ خواتین کو خلع کا حق دیا گیا تھا اور خواتین کی شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 سال مقرر کی گئی تھی۔

1979 کے بعد ان دونوں قوانین کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ دسمبر 2018 میں لڑکیوں کی جبری شادی پر پابندی اور بچیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 13 سال مقرر کرنے کی ایک قرارداد کو بھی پاس نہیں ہونے دیا گیا۔

ایران میں خواتین کے بنیادی حقوق کی منظم انداز میں خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ ان کی آزادی کو محدود تر کیا جارہا ہے۔ ان کے حوصلے اور عزم کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ سلسلہ اب رک جانا چاہیے۔ فرح کی طرح سب ایرانی لڑکیاں آزاد اور پرعزم ہیں۔ اس لیے وہ ہر روز ان ظالم قوتوں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن انہیں اس کے لیے حمایت کی ضرورت ہے۔

خواتین کے لیے مساوات اور برابری چاہے جانے کی یہ موجودہ لہر صرف مغربی خواتین کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ یہ مطالبہ پوری دنیا کی خواتین کے لیے ہونا چاہیے۔

فرح کو جو ماحول، آزادی اور تحفظ حاصل ہے، تمام ایرانی لڑکیاں اس کی حق دار ہیں۔ اگرآپ توجہ دیں تو لاکھوں کروڑوں ایرانی خواتین اذیت میں چلاتی سنائی دیں گی، اس لیے نہیں کہ انہیں صرف حفاظت چاہیے، بلکہ اس لیے کہ وہ چاہتی ہیں ان کی بات سنی جائے۔ کیا آپ سننا پسند کریں گے؟


شہزادی نور پہلوی ایران کے سابق ولی عہد رضا پہلوی کی بڑی صاحب زادی اور کولمبیا یونیورسٹی ( امریکہ) میں ایم بی اے کی طالبہ ہیں۔ وہ ایک غیر منافع بخش سرمایہ کاری فنڈ ’اکیومن‘ کی مشیر کے طور پر بھی کام کررہی ہیں۔

انڈپینڈنٹ فارسی

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین