کیا پاکستان بڑھتی موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے تیار ہے؟

گذشتہ کئی سالوں سے ہم گرمی کو آگے جاتا دیکھ رہے ہیں۔ اب بارشوں کی جھڑیاں نومبر دسمبر کے بجائے جنوری فروری میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جو غیر معمولی امر ہے، ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات طاہر خان

30  مئی 2018 کو لی گئی اس تصویر میں گرمی کی شدت سے پریشان کراچی کے شہری پانی میں نہا رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

پاکستان میں مون سون کی آمد آمد ہے۔ ابھی تک شمالی علاقوں کے چند مقامات کے علاوہ ملک کے  کسی حصے سے زیادہ بارشوں کی اطلاعات موصول نہیں ہو رہیں، جو برسات میں غیر معمولی بات ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے طول و عرض میں شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ پارہ ماضی کے ریکارڈ توڑتا نظر آ رہا ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہو رہا، تقریباً ساری دنیا میں گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اسی طرح بارشوں کا تناسب بھی دنیا میں کم ہوا ہے۔

عالمی موسمیاتی تنظیم کے ماتحت ادارے ساؤتھ ایشیئن کلائمٹ آؤٹ لک فورم (ساسکوف) نے رواں سال کے دوران پاکستان میں مون سون کی کم بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔

ساسکوف کے مطابق: ’پاکستان میں جولائی سے ستمبر 2019 کے دوران دس سے پندرہ فیصد بارشیں کم ہوں گی۔‘

مون سون بارشوں کی کمی سے سب سے زیادہ سندھ اور بلوچستان کے صوبے متاثر ہوں گے۔ جہاں پیش گوئی کے مطابق گذشتہ سالوں کی نسبت 20 سے 25 فیصد کم بارش ہو گی۔

بارشوں کی کمی سے جنوبی پنجاب بھی متاثر ہو گا۔ جہاں ساسکوف نے 15 فیصد کم  بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔

عالمی موسمیاتی تنظیم کی گذشتہ سال جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق: ’2018 دنیا بھر میں لگاتار چوتھا گرم ترین سال تھا۔‘

اونچے درجہ حرارت کے باعث 2018 میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہوا۔ جبکہ سمندر میں پانی کی سطح بھی 2017 کی نسبت دو سے تین ملی میٹر اونچی ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق: ’شدید درجہ حرارت میں پیدا ہونے والی گرمی کا 90 فیصد سمندر کا پانی جذب کرتا ہے۔ جس کے باعث وہ زیادہ گرم ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ بننے کی وجہ سے سمندر کے پانی کی تیزابیت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئرز اپنی جگہ سے ہٹنا شروع کر دیتے ہیں۔

اسلام آباد میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل طاہر خان کے مطابق: ’اس طرح کی غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیاں آب و ہوا میں بڑی تبدیلیوں کے باعث دیکھنے میں آتی ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں طاہر خان نے کہا کہ ’گذشتہ کئی سالوں سے ہم گرمی کو آگے جاتا دیکھ رہے ہیں۔ اب بارشوں کی جھڑیاں نومبر دسمبر کے بجائے جنوری فروری میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جو غیر معمولی امر ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’پاکستان کے شمال میں کئی گلیشئیرز کی حرکت دیکھی گئی ہے۔ شستر گلیشیئر تقریباً کراکرم ہائی وے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ تمام آب و ہوا میں تبدیلیوں کی نشانیاں ہیں۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتی اور شدید موسمیاتی تبدیلیاں غیرمتوقع اور تباہ کن واقعات کی وجہ بھی بن سکتی ہیں۔ جن میں سیلاب، طوفان، جنگلات کا خاتمہ، خشک سالی، خوراک کی کمی، اور شدید گرمی کی لہر وغیرہ ہو سکتے ہیں۔

طاہر خان کے مطابق: ’کم وقت میں زیادہ بارش کا ہونا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘

اس سلسلے میں انہوں نے 2010 کے سیلابوں کی مثال دی۔ جن کی وجہ کم وقت میں زیادہ بارش بنی۔

انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں پاکستان میں ایک مہینے میں سو ملی میٹر بارش ہوا کرتی تھی۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں ایک گھنٹے میں دو سو ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ یہ سب نہایت غیر معمولی ہے۔ اور قدرتی آفات کا باعث بنتا ہے۔‘

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: بارش کا پانی جن ندی نالوں میں بہتا ہے وہ صدیوں میں بنتے ہیں اور پانی کی خاص مقدار ان میں سما سکتی ہے۔ اب جب بارش کا پانی زیادہ ہو جائے گا تو ان ندی نالوں میں نہیں سما سکے گا اور یوں سیلاب کی وجہ بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ جغرافیائی ساخت ایک دو سال یا عشروں میں تبدیل نہیں ہو جاتی۔ اس کو صدیاں لگتی ہیں۔

عالمی موسمیاتی تنظیم کے سیکریٹری جنرل پیٹری تالاس کہتے ہیں: ’آب و ہوا کی تبدیلی محض تبدیلی نہیں ہے۔ بلکہ ان تبدیلیوں سے سمندر، آبی وسائل، ماحولیاتی نظام، فوڈ سیکیورٹی اور پورے کرہ ارض کی پائیدار ترقی متاثر ہوتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں: ’زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ارتکاز میں اضافہ 30 سے 50 لاکھ سال پہلے دیکھنے میں آیا تھا۔ جب درجہ حرارت دو سے تین ڈگری سیلسیئس زیادہ اور سمندر کی سطح آج سے دس سے بیس میٹر اونچی ہوا کرتی تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم پاکستان میں ایسی کسی صورت حال کے لیے کتنا تیار ہیں؟

اس سال اپریل میں آبی وسائل پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو جولائی اور ستمبر کے مون سون کے دوران شدید سیلابوں کے امکان سے آگاہ کیا گیا تھا۔ تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث متوقع قدرتی آفات کے روک تھام یا ان سے بچاؤ کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جا سکی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات