انسداد ہراسانی محتسب کا دائرہ کار جنسی ہراسانی تک محدود

ہائی کورٹ بنچ نے ادارے کے تین فیصلوں کے خلاف دائر رٹ پٹیشنز میں فیصلہ دیا جس کے مطابق انسداد ہراسانی محتسب کا ادارہ صرف جنسی ہراسانی سے متعلق درخواستیں سن سکتا ہے۔

انسداد ہراسانی محتسب کے پاس 43 زیر التوا مقدمات کا تعلق  جنسی ہراسانی سے ہے(اے پی پی)۔

پشاور میں ایک جامعہ کی استاد ڈاکٹر شیرین (فرضی نام) کو ایک کمیٹی کی سربراہی سونپی جاتی ہے، بعض سینیئرز فیصلے کو پسند نہیں کرتے اور خاتون استاد کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ مختلف طریقوں سے ان کے کام میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، ذہنی دباؤ کی شکار ڈاکٹر شیرین ان سینیئرز کے خلاف انسداد ہراسانی محتسب سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

اسلام آباد کی رہائشی مسز ابراہیم (فرضی نام) ہم جماعتوں کے ہاتھوں بیٹے کی پٹائی کے خلاف اس کے سکول شکایت لے کر جاتی ہیں۔ جہاں انہیں سٹاف کے ہاتھوں نہ صرف بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان سے ہاتھا پائی بھی کی جاتی ہے۔ 38 سالہ ماں اس ہراسانی کے خلاف انسداد ہراسانی محتسب کو درخواست دیتی ہیں، جس پر کارروائی جاری ہے۔

لیکن اب مذکورہ محتسب کے ادارے نے ڈاکٹر شیرین کی درخواست قبول کرنے سے معذرت کر لی ہے اور مسز ابراہیم کے زیر التوا مقدمے پر بھی کارروائی روک دی گئی ہے۔

اور اس کی وجہ گذشتہ پیر کے روز آنے والا اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ ہے۔ ہائی کورٹ بنچ نے محتسب کے ادارے کے تین فیصلوں کے خلاف دائر رٹ پٹیشنز میں فیصلہ دیا، جس کے مطابق انسداد ہراسانی محتسب کا ادارہ صرف جنسی ہراسانی سے متعلق درخواستیں سن سکتا ہے اور خواتین کے ساتھ ہونے والی دوسری کسی قسم کی ہراسانی اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے مطابق خواتین کو دفتروں میں تحفظ فراہم کرنے کی خاطر انسداد ہراسانی ایکٹ 2010 کے مطابق عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ملازمت کے دوران فوائد دینا، ملازمت کی جگہ پر لفظی یا جنسی طور پر ہراساں کرنا اور ایسا ماحول بنانا جس سے ملازمت میں دشواری ہو یا انکار کی صورت میں ملازمت کے دوران ملنے والے فوائد سے دور رکھا جانا یا کوئی نقصان پہنچانا، ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے۔ اداروں میں لیے جانے والے انتظامی امور کو ہراسانی کے طور نہیں لیا جا سکتا۔

فیصلے کے مطابق تینوں درخواستوں جن پر محتسب نے فیصلے دیے، ان میں عوامل، رویوں اور اشاروں کی نوعیت جنسی نہیں تھی اور اس لیے وہ محتسب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔

انسداد ہراسانی محتسب کے رجسٹرار رحمان شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عدالت کے فیصلے کے بعد ہم نے جنسی ہراسانی کے علاوہ مقدمات اور درخواستوں پر کارروائی روک لی ہے اور ایسی نئی درخواستیں بھی قبول کرنا بند کر دی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس وقت ادارے کے پاس جنسی ہراسانی کے علاوہ ایک سو سے زیادہ درخواستیں ہیں۔

یہ درخواستیں خواتین اور حضرات دونوں کی طرف سے ہیں بلکہ خواتین نے خواتین اور حضرات نے خواتین کے خلاف بھی ہراسانی کی درخواستیں جمع کروائی ہوئی ہیں۔

انسداد ہراسانی محتسب کے پاس 43 زیر التوا مقدمات کا تعلق خالصتاً جنسی ہراسانی سے ہے۔

رحمان شہزاد کے مطابق ’ہمارے دفتر کو ہر مہینے مجموعی طور پر 50 سے زیادہ درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔‘

انسداد ہراسانی محتسب کی سربراہ کشمالہ طارق نے ادارے کے ایک کتابچے میں شائع ہونے والے پیغام میں لکھا ہے کہ ’ہراسانی صرف جنسی طور پر نہیں بلکہ جنس، ذات، رنگ، نسل یا لسانیت کی بنیاد پر ملازمت کے دوران غیر مساوی سلوک اور فوائد پہنچانے جیسی سرگرمیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ ہمارا نظریہ ہے کہ امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے اور تمام جنس ذات اور عقائد رکھنے والوں کے لیے سازگار ماحول مہیا کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں کتابچے میں سے اس پیغام کو حذف کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

ہراسانی کی تعریف سے متعلق ایک مقدمہ پاکستان کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، جس میں انسداد ہراسانی محتسب کا جغرافیائی دائرہ کار کا تعین بھی ہونا ہے۔

رحمان شہزاد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے پر کافی مسائل حل ہو جائیں گے۔ ’ایک دفعہ ہراسانی کی تعریف ہو جائے تو پھر ہمارا کام بھی کافی حد تک آسان ہو جائے گا۔‘

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’بھلا انسداد ہراسانی محتسب خود سے ہراسانی کی تعریف کیسے کر سکتی ہیں؟ یہ قانون میں موجود ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جنسی ہراسانی کے علاوہ دوسری ہراسانیوں کے لیے خواتین کے پاس فورمز موجود ہیں۔ جن میں سروسز ٹریبونل اور لیبر کورٹس وغیرہ شامل ہیں۔ انسداد ہراسانی محتسب کا ادارہ صرف جنسی ہراسانی تک محدود رہنا چاہیے۔‘

وکیل اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد کے مطابق ’جنسی ہراسانی کے خلاف خواتین کے تحفظ سے متعلق قانون میں مقامِ ملازمت پر امتیازی سلوک کا ذکر نہیں ہے۔ 2010 کے اس قانون میں ایسی ترامیم کی ضرورت ہے جو آجر اور اجیر کے تعلق اور دونوں میں سے کسی ایک کی شکایت کی صورت میں محتسب کے اختیارات کی وضاحت کر سکے۔‘

انھوں نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ محتسب کے پاس خود سے تعریف کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ایسا صرف پارلیمان ہی کر سکتی ہے۔

رحمان شہزاد کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے متعلقہ قانون میں ترمیم کی سمری وفاقی وزارت قانون کو بھیجی ہوئی ہے۔

انسداد ہراسانی محتسب کے رجسٹرار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم اس انتظار میں ہیں کہ کب یہ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے۔

انسداد ہراسانی محتسب کی جانب سے درخواست مسترد ہونے پر ڈاکٹر شیرین کہتی ہیں کہ مجھے نہیں معلوم میری دادرسی کے لیے کونسا ادارہ یا فورم ہے۔ اگرچہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے لیکن اس سے بہت سی خواتین متاثر ہوں گی۔‘

انھوں نے جنسی ہراسانی سے متعلق قانون میں فوری ترمیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کو ایسا عمومی بنایا جائے کہ خصوصاً خواتین ہر قسم کی ہراسانی کے خلاف محتسب کے پاس جا سکیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین