ریپ کا ملزم 20 سال بعد پاکستان فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار

محمد ابرار اسلم شراب سے مدہوش ایک خاتون کے ریپ کے الزام میں برطانوی پولیس کو 2001 سے مطلوب تھے۔

لیڈز کراؤن کورٹ نے  جنسی زیادتی ثابت ہونے کے بعد ابرار کو 11 سال اور تین ماہ قید کی سزا سنائی ہے(SWNS )

برطانوی پولیس نے 20 سال کی کوششوں کے بعد آخر کار جنسی زیادتی میں ملوث ایک ملزم کو طیارے سے عین اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ پاکستان پرواز کے لیے تیار تھا۔

47 سالہ محمد ابرار اسلم شراب سے مدہوش ایک خاتون کے ریپ کے الزام میں پولیس کو 2001 سے مطلوب تھے۔

لیڈز کراؤن کورٹ نے جمعرات کو جنسی زیادتی ثابت ہونے کے بعد ابرار کو 11 سال اور تین ماہ قید کی سزا سنائی ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ وسیع پیمانے پر تفشیش کے باوجود ملزم تقریباً دو دہائیوں تک مفرور رہا۔

مغربی یارک شائر پولیس کی کولڈ کیس ریویو ٹیم نے اس کیس کی ازسرنو تحقیق کا آغاز گذشتہ برس اُس وقت کیا جب فرانزک شواہد میں اہم پیش رفت سامنے آئی۔

اتنے وسیع پیمانے اور طویل عرصے تک چلنے والی تحقیق میں اُس وقت اہم موڑ آیا جب ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ابرار کو بطور ممکنہ ملزم شناخت کر لیا گیا۔

برمنگھم سے تعلق رکھنے والے ابرار، جن کی عمر جنسی زیادتی کے وقت 29 برس تھی، کے بارے میں معلومات پولیس اور ای۔ باڈر سسٹم کے ذریعے برطانیہ بھر میں پھیلائی گئی تھیں۔

مغربی مڈ لینڈز کے پولیس آفسران نے ابرار کا کھوج اُس وقت لگایا جب وہ رواں سال آٹھ جنوری کو برمنگھم ائیرپورٹ پر ایمریٹس کے طیارے پر سوار ہو چکے تھے جو چند ہی لمحوں بعد پاکستان کے لیے پرواز بھرنے والا تھا۔

وکیل استغاثہ سٹیفن ووڈ کے مطابق: ’پرواز براستہ دبئی پاکستان روانگی کے لیے بالکل تیار تھی جس کا مطلب ہے کہ وہ چند لمحوں بعد ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہو جاتے۔‘

ابرار نے فروری میں ڈی این اے نمونے ثابت ہونے کے بعد اعتراف جرم کر لیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران وکیل استغاثہ نے متاثرہ خاتون کا بیان پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے واقعے کے بعد اپنے احساسات کا اظہار کیا تھا کہ کیسے انہوں نے ذلت، غصے اور خوف کا سامنا کیا۔

ریپ کے بعد متاثرہ خاتون نے، جن کا نام قانونی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا، پولیس کو اس واقعے کی رپورٹ کی لیکن وسیع اور جامع تحقیقات کے باوجود پولیس ملزم کا دو دہائیوں تک سراغ نہیں لگا سکی۔

وکیل استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ ابرار نے متاثرہ خاتون کو اس وقت اپنی گاڑی میں لفٹ دینے کی پیشکش کی جب وہ نشے کی حالت میں نائٹ کلب سے صبح اپنے گھر کے لیے لوٹ رہی تھیں۔

ووڈ کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون کے ساتھ جب جنسی فعل کیا گیا تو وہ نشے میں ہونے کے باعث باضابطہ طور پر اس کی اجازت دینے کے قابل نہیں تھیں۔

’جیسا کہ مجرم نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ نشے میں ہونے کے باعث وہ اس بات کا ادراک نہیں کر پایا کہ خاتون اس فعل کے لیے راضی تھیں۔‘

ووڈ نے کہا کہ پراسیکیوشن یہ نہیں کہہ سکتی کہ ابرار خاتون کو سڑک سے اغوا کر کے لائے تھے۔ ’یہ ایک طویل قید جیسا تھا اور خاتون نشے میں ہونے کے باعث اپنا دفاع کرنے سے قاصر تھیں۔‘

دوسری جانب وکیل دفاع سہیل خان کا کہنا تھا کہ ان کے موکل اپنی غلطی پر افسوس ظاہر کر چکے ہیں اور وہ متاثرہ خاتون سے بھی معافی مانگنا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا ’وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے اس عمل نے ان کی سوچ سے بھی زیادہ خاتون کو متاثر کیا‘۔

ابرار کو قید کی سزا سناتے ہوئے جج سائمن فیلپس کیوسی نے پولیس تحقیقات اور ان کی ٹیم میں شامل افسران کی پیشہ ورانہ قابلیت اور عزم کو سراہا۔

جج نے ویڈیو لنک کے ذریعے لیڈز جیل میں قید ابرار کو بتایا کہ انہوں نے متاثرہ خاتون کی زندگی تباہ کر دی تھی۔

جج نے مزید کہا: ’ایسی کوئی سزا نہیں جو متاثرہ خاتون پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کا ازالہ کر سکے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ