ایران کی ٹینکر روکنے کی کوشش، برطانوی بحریہ نے ’بندوقیں تان‘ لیں

برطانوی حکومت نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ آبنائے ہرمز میں ایران کے انقلابی گارڈز کی تین کشتیوں نے ایک برطانوی آئل ٹینکر کو ’روکنے کی کوشش کی ہے‘، جبکہ ایران نے ایسے کسی واقعے کی تردید کی ہے۔

فروری 2014 میں لی گئ اس فائل تصویر میں ایچ ایم ایس مونٹروز  سائپرس کی ایک بندرگاہ پر لنگرانداز ہے  (اے ایف پی)

برطانوی حکومت نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ آبنائے ہرمز میں ایران کے انقلابی گارڈز کی تین کشتیوں نے ایک برطانوی آئل ٹینکر کو ’روکنے کی کوشش کی ہے‘، جبکہ ایران نے ایسے کسی واقعے کی تردید کی ہے۔

بیان کے مطابق بدھ کو ایرانی کشتیاں برطانوی جہاز ’برٹش ہیرٹیج‘ کے پاس آئیں اور خلیج میں ایرانی سمندری حدود کے قریب روکنے کا کہا لیکن برطانوی رائل بحریہ کی انہیں ریڈیو پر دی جانے والی’ زبانی وارننگ‘ کے بعد وہ واپس پلٹ گئیں۔

امریکی دفاعی اہلکاروں کے مطابق برطانوی نیوی فریگیٹ ایچ ایم ایس ’مونٹروز‘ اس ٹینکر کے ساتھ محو سفر تھا اور اس پر تعینات بحری فوج کے اہلکاروں کی طرف سے ایرانی کشتیوں پر بندوقیں تان لی گئیں۔ انڈپینڈنٹ کی جانب سے وزارت دفاع سے اس سلسلے میں موقف لینے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک امریکی اہلکار نے کہا: ’یہ ہراسانی کی ایک کوشش تھی جو جہاز کا راستہ روکنے کے لیے کی گئی۔‘

برطانوی حکومت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق: ’ہمیں اس صورتحال پر تشویش ہے اور ایران حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ خطے میں کشیدگی کو کم کرے۔‘

البتہ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور انقلابی گارڈز نے ایسے کسی واقعے کی تردید کی ہے۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی فارس نے انقلابی گارڈز کے ایک علامیے سے حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’پچھلے 24 گھنٹوں میں، ’برٹش ٹائڈز‘ سمیت کسی غیر ملکی جہاز سے کوئی  واقعہ پیش نہیں آیا۔‘

تہران نے کئی دنوں سے برطانیہ کو یہ تنبیہ دے رکھی ہے کہ گذشتہ ہفتے برطانیہ کی جانب سے ایرانی جہاز پکڑنے کے بعد برطانیہ کو ’سنگین نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس  واقع سے کچھ گھنٹے قبل ایرانی صدر حسن روحانی نے ایرانی سپر ٹینکر ’گریس ون‘ کے پکڑے جانے کو ’غلط اور سنگین‘ قرار دیا تھا۔ گذشتہ ہفتے برطانوی رائل میرینز نے جبرالٹر میں ایرانی تیل کے ٹینکر کو یورپی یونین کی پابندیوں کی مبینہ خلاف ورزی کے شبہے میں ضبط کر لیا تھا۔ ان کا شک تھا کہ اس ٹینکر میں تیل شام پہنچایا جا رہا تھا۔

حسن روحانی نے برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’ برطانیہ اس تمام صورتحال کو شروع کرنے والا ہے اور اب وہ اس کے نتائج کا سامنا کرے گا۔‘

انہوں نے بین الاقوامی سمندری سفر کو مکمل محفوظ بنانے پر بھی زور دیا۔

انہوں نے مزید کہا: ’آپ اس حد تک ناامید ہو چکے ہیں کہ اب آپ کے تیل کے ٹینکر بھی  جنگی جہازوں کے بغیر نہیں سفر کر سکتے۔ اس کی وجہ آپ کا خوفزدہ ہونا ہے۔ تو آپ ایسے اقدامات کیوں کرتے ہیں؟ آپ کو چاہیے کہ آپ محفوظ سمندری سفر کی اجازت دیں۔‘

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جمعرات کو برطانیہ کے دعوے کی تردید کی کہ ایران نے آئل ٹینکر روکنے کی کوشش کی ہے۔ خبر رساں اجنسی اسنا کے مطابق انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا: ’وہ ایسے دعوے صرف تشویش پیدا کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ ایسے دعوے بیکار ہیں اور وہ پہلے بھی کافی بار کر چکے ہیں۔ وہ صرف اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے ایسے دعوے کرتے ہیں۔‘

جب  برطانوی حکام سے پوچھا گیا کہ آیا وہ اس خطے میں فوجی اہلکاروں کو بڑھائے گا تو ڈاوننگ سٹریٹ کے ایک ترجمان نے کہا: ’ہم وہاں طویل عرصے سے موجود ہیں۔ ہم وہاں سکیورٹی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق  سمندری سفر میں آزادی یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔‘

اس سے قبل ایران نے برطانوی سفیر کو بلا کر ’غیر قانونی‘ طور پر  ’گریس ون‘ جہاز پکڑے جانے پر احتجاج بھی کیا تھا۔

ٹریکنگ معلومات کے مطابق اس ٹینکر نے مصر کی سویز نہر کے بجائے لمبے راستے سے جنوبی افریقہ کے گرد گھوم کر بحیرہ روم کا سفر طے کیا تھا۔ دستاویزات کے مطابق اس ٹینکر نے بصرہ کی عراقی بندر گاہ سے تیل لاد کر دسمبر میں سفر شروع کیا تھا۔ گو کہ بصرہ میں اس کا اندراج نہیں کیا گیا اور ٹریکنگ سسٹم بھی وہاں بند تھا۔

جب برطانوی حکومت سے پوچھا گیا کہ کہیں ایران کا مبینہ طور پر جہاز کو روکنا ’گریس ون‘ کو تحویل میں لینے کا ردعمل تو نہیں، تو ڈاوننگ سٹریٹ کے ترجمان نے کہا: ’میں ایران کے مقاصد پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ ہمارا موقف وہی ہے۔ ’گریس ون‘ کو ضبط کرنے کا تعلق شام پر پابندیوں کی خلاف ورزی سے ہے، اس کا ایران مسئلے سے تعلق نہیں۔‘

یہ واقع ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب گذشتہ سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2015 کے ایران جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

ایران کی جانب سے معاہدے میں واپسی کی پیشکش کی گئی ہے لیکن امریکی صدر نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کے مطابق اس معاہدے میں خطے میں جاری تنازعات میں ایران کے کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ساتھ بہت سخاوت دکھائی گئی ہے۔

مئی میں امریکہ نے خطے میں بحری بیڑے سمیت بمبار طیارے بھجوا دیے تھے جن کا مقصد ایرانی دھمکیوں کا جواب بتایا گیا تھا۔

امریکہ نے ایران پر خلیج میں ہونے والے تیل کے ٹینکروں پر حملے اور بین الاقوامی فضائی حدود میں اپنا ڈرون مار گرانے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

ایران نے ٹینکروں پر حملے کی تردید کی ہے اور  کہا ہے کہ امریکی ڈرون طیارہ ایرانی حدود کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا