خواتین کو کیسا لباس پہننا چاہیے؟

خواتین کے لباس پر ہونے والی یہ بحث یا پابندی خواتین کی ذہنی حالت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ گھر سے نکلنے سے پہلے وہ اپنے لباس کو دس دفعہ تنقیدی نظروں سے دیکھتی ہیں اور پھر بھی عوامی جگہوں پر اپنے اوپر پڑنے والی نظروں پر خود کو ہی قصوروار سمجھتی ہیں۔

ہمیں کہیں نہ کہیں لگتا ہے کہ عورت کا جسم ہی فساد کی جڑ ہے(اے ایف پی)۔

اپنی مرضی کا لباس پہننا ہر انسان کا حق ہے لیکن ہماری خواتین اس بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔ بچپن سے ہی انہیں بتانا شروع کر دیا جاتا ہے کہ انہیں کیسا لباس پہننا چاہئیے اور کس قسم کے لباس سے احتراز کرنا چاہئیے۔ جنسی ہراسانی کی بھی بات ہو تو قصوروار عورت اور اس کے لباس کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہمیں کہیں نہ کہیں لگتا ہے کہ عورت کا جسم ہی فساد کی جڑ ہے۔ ہم اس جڑ کو ختم کرنے کے لیے کبھی اسے برقع کے پیچھے چھپاتے ہیں تو کبھی پانچ میٹر لمبی چادر سے ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں پھر بھی ہماری نظریں ان کے جسم کے نشیب و فراز ڈھونڈتی رہتی ہیں۔

مغرب میں اس موضوع پر بہت بحث ہوئی ہے۔ وہاں کسی خاتون کو گھورنا یا اسے اس کے لباس کے مناسب یا غیر مناسب ہونے کا بتانا جرم سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی خاتون کے ساتھ ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اس بارے شکایت کرنے کا مکمل حق رکھتی ہے۔ کچھ روز قبل ایک امریکی ڈاکٹر کے ساتھ بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔

37 سالہ ڈاکٹر تشا راؤ تیس جون کو اپنے آٹھ سالہ بیٹے کے ہمراہ جمیکا میں چھٹیاں گزار کر واپس میامی جا رہی تھیں۔ جہاز پر سوار ہونے سے قبل انہیں ایک طرف لے جا کر کہا گیا کہ ان کا لباس اس فلائٹ کے لیے غیر مناسب ہے۔

فلائٹ اٹینڈنٹ نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس کوئی جیکٹ ہے جس سے وہ اپنا جسم ڈھانپ سکیں۔ ڈاکٹر تشا راؤ کے پاس ایسی کوئی جیکٹ نہیں تھی۔ ڈاکٹر تشا  راؤ کو بتایا گیا کہ وہ اس لباس کے ساتھ فلائٹ میں سوار نہیں ہو سکتیں۔ ڈاکٹر  راؤ نے فلائٹ اٹینڈنٹ سے ایک کمبل مانگا جسے اوڑھ کر وہ فلائٹ میں داخل ہوئیں۔ جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھیں تو ان کے بیٹے نے کمبل میں منہ چھپا لیا اور انہیں کہا کہ وہ اصول و ضوابط پر عمل کیا کریں۔ ڈاکٹر تشا  راؤ شرمندہ ہو گئیں۔ اب وہ اپنے بچے کو کیا بتاتیں کہ انہوں نے کوئی اصول نہیں توڑا بلکہ ان کے ساتھ نسلی امتیاز برتا جا رہا ہے۔  

ڈاکٹر تشا نے جہاز میں کچھ ایسی بھی خواتین دیکھیں جن کا لباس ان کے لباس سے مختصر تھا لیکن انہیں فلائٹ پر سوار ہونے سے قبل کچھ نہیں کہا گیا۔ انہوں نے ایک ایسی ہی خاتون سے بات کی تو اس نے انہیں نہ صرف اپنا نمبر دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ ائیر لائن کے خلاف شکایت میں ان کا مکمل ساتھ دیں گی۔  

ڈاکٹر تشا نے ائیر لائن کے اس رویے کے خلاف اپنی شکایت درج کروائی اور ان سے معافی کا مطالبہ کیا۔ معاملہ بڑھنے پر ائیر لائن نے ان سے فوری معافی مانگی اور انہیں ان کا کرایہ بھی واپس کرنے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ خبر پڑھنے کے بعد میں سوچنے لگی کہ کیا پاکستان میں کبھی ایسا ہو سکتا ہے؟ ہمارے ہاں تو اکثر ہی خواتین کو ان کے لباس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ سنا دیا جاتا ہے۔ کئی اداروں میں خواتین کے جینز یا ٹائٹس پہن کر آنے پر پابندی ہے۔ اگر غلطی سے کوئی خاتون جینز یا ٹائٹس پہن بھی آئے تو اسے سخت سست سنائی جاتی ہیں۔ اگر کوئی اس رویے کی شکایت کر دے تو ملبہ اسی پر ڈال دیا جاتا ہے۔

دو سال قبل کراچی کے ایک نجی تعلیمی ادارے انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ کی ایک لیکچرار کو یونیورسٹی کے گیٹ پر موجود سکیورٹی گارڈ نے ان کے نامناسب لباس کی وجہ سے یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ خاتون لیکچرار نے ٹوئٹر پر اپنی تصویر ڈالی اور لوگوں سے پوچھا کہ ان کے لباس میں ایسی کیا برائی تھی۔ معاملہ سوشل میڈیا پر اٹھا، اخبارات میں آیا اور پھر ویسے ہی ٹھنڈا ہو گیا۔ 

ستمبر 2013 میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اپنی کچھ طالبات کو جینز یا ٹائٹس پہننے پر اور کچھ کو دوپٹہ نہ لینے پر جرمانہ کیا تھا۔ ان طالبات کے نام بمعہ وجہ جرمانہ نوٹس بورڈ پر لکھے گئے تھے۔ اس پر بھی بہت بات کی گئی اور یونیورسٹی کے اس عمل کو برا کہا گیا لیکن اس کے باوجود خواتین کے مناسب کپڑوں کی بحث ختم نہ ہو سکی۔

اس سال ویلنٹائنز ڈے پر یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد میں سسٹرز ڈے کے نام پر طالبات میں چادریں تقسیم کی گئیں اور انہیں حیا کا درس دیا گیا۔ اس پر بھی کافی کچھ لکھا گیا اور کہا گیا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ کئی نیوز چینلز نے تو یونیورسٹی کے اس عمل پر رپورٹ بھی تیار کی جس میں وائس چانسلر صاحب اپنے ’وژن‘ پر فخر کرتے نظر آئے۔

ہمارے تعلیمی اداروں کا یہ حال ہے تو بقیہ اداروں کی کیا بات کرنی۔ خواتین کے لباس پر ہونے والی یہ بحث یا پابندی خواتین کی ذہنی حالت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ گھر سے نکلنے سے پہلے وہ اپنے لباس کو دس دفعہ تنقیدی نظروں سے دیکھتی ہیں اور پھر بھی عوامی جگہوں پر اپنے اوپر پڑنے والی نظروں پر خود کو ہی قصوروار سمجھتی ہیں۔ کوئی بھی شخص یا ادارہ انہیں ان کے لباس کی بنیاد پر لوگوں کے سامنے شرمندہ کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن وہ اس رویے کی شکایت کرنے کا حق نہیں رکھتیں۔ امریکہ کی ڈاکٹر تیشا کو یہ حق حاصل ہے لیکن پاکستان کی عائشہ کو ایسا کوئی حق حاصل نہیں۔ وہ ایسی کوئی شکایت لگائے گی تو اسے ایک چادر تحفے میں دی جائے گی اور کہا جائے گا یہ اوڑھ کر گھر بیٹھو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر