باجوڑ کا ووکیشنل سینٹر جو خواتین کو خودمختار بنا رہا ہے

بخت مینہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی اٹھارہ سالہ بیٹی کو ویمن وکیشنل سینٹر خار میں اس غرض سے داخلہ دلانا چاہتی تھیں کہ ان کو جو ماہانہ وظیفہ ملے گا اس سے گھر کا چولہا جلتا رہے گا۔

چالیس سالہ بخت مینہ  باجوڑ کے تحصیل ماموند میں رہتی ہیں، پچھلے سات سال سے بیوہ ہیں اور پانچ بچوں کی کفالت کر رہی ہیں۔ بخت مینہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی اٹھارہ سالہ بیٹی کو ویمن وکیشنل سینٹر خار میں اس غرض سے داخلہ دلانا چاہتی تھیں کہ ان کو جو ماہانہ وظیفہ ملے گا اس سے گھر کا چولہا جلتا رہے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ ماہانہ وظیفے کی وجہ سے انھوں نے خود بھی داخلہ لے لیا۔ ان کو خدشہ تھا کہ چند ماہ بعد یہ کورس ختم ہو جائے گا اور وہ ایک مرتبہ پھر فاقہ کشی پر مجبور ہوجائیں گی لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔

بخت مینہ اور ان کی بیٹی نے اتنا اچھا ہنر سیکھا کہ آج ان کے دو بچے سکول میں پڑھ رہے ہیں جبکہ دور دراز سے لوگ سلائی کے لیے کپڑے بخت مینہ کے پاس ہی لے کر آتے ہیں۔ بخت مینہ کہتی ہیں کہ بحیثیت ان پڑھ خاتون وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ ایک دن معاشی طور پر اتنی مضبوط اور خودمختار ہو جائیں گی۔ 

بخت مینہ ان کی بیٹی اور ان جیسی سینکڑوں خواتین باجوڑ میں پاکستان فوج کی مدد سے سول کالونی خار میں قائم وومن وکیشنل ٹریننگ سینٹر سے فراغت کے بعد اپنے گھروں میں سیکھے ہوئے ہنر سے فائدہ اٹھا کر معاشی خودمختاری کی جانب گامزن ہیں۔

 قبائلی ضلع باجوڑ میں امن کے قیام کے بعد خواتین کے لیے نومبر 2015 میں  وکیشنل ٹریننگ سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس میں کلاسوں کا باقاعدہ آغاز 2016 سے ہوا جہاں خواتین کو سلائی کڑھائی, دستکاری، ڈیکوریشن پیس کی تیاری، کمپیوٹر ڈپلومہ کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کا ہنر سکھایا جاتا ہے.

افغانستان میں امریکی یلغار کے بعد خطے میں پھیلنے والی دہشت گردی کی آگ نے ضلع باجوڑ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بالاآخر وہاں  فوجی آپریشن ناگزیر ہوگیا اور اہل باجوڑ کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ملک کے دیکر حصوں میں عارضی طور پر آباد ہونا پڑا۔ اس آپریشن کے دوران لوگوں کی بڑی تعداد نقل مکانی پرمجبور ہوگئی۔

اس ہجرت کی نتیجہ میں خواتین نے وہ شعور پایا جس سے قبائلی اضلاع کی خواتین محروم تھیں جس کی وجہ سے خواتین نے مختلف شعبہ زندگی میں دلچسپی لینا شروع کر دی اور آج باجوڑ میں قبائلی علاقے کا سب سے پہلا وومن وکیشنل سنٹر خوب فعال ہے۔

باجوڑ خیبر پختونخوا کا ضلع ہے جو آٹھ تحصیلوں پر مشتمل ہے اس کو دو ڈیژن میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں اتمان خیل اور ترکانڑی قبائل آباد ہے۔

خیبر پختونخواہ کے شمال میں واقع ضلع باجوڑ جو کچھ عرصے پہلے ایجنسی کہلایا کرتا تھا کی روایات دوسرے پشتون بلٹ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ باجوڑ کئی حوالوں سے جانا جاتا ہے کچھ دہائیاں پہلے یہاں پرانا نوابی نظام تھا اور بس سارے سیاہ و سفید کا مالک چند خاندان ہوا کرتے تھے۔ یہاں کی خواتین کو بنیادی حقوق کا نام و نشان تک معلوم نہیں تھا وہی قدامت پرستی اور تفرق کا دور تھا، اس نوابیزم سے نجات پائی نہیں کہ پھر طالبانئیزیشن کا دور شروع ہوا۔ یہ وہ دور تھا جس میں عورت کا نام تک نہیں لیا جاسکتا تھا حقوق تو دور کی بات تھی۔ 

اگر اس وقت کوئی خواتین کے حقوق کی بات کرتا تو کفر کا فتویٰ لگا کر اسے جان سے مار دیا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب طالبان کا اثر زیادہ بڑھنے لگا تو ان کے خلاف ایک منظم فوجی آپریشن ناگزیر ہو گیا اسی اثناء میں پاکستان فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن کر کے طالبان کا ’خاتمہ‘ کر دیا اور امن قائم ہونے پر دیگر ترقیاتی کاموں سمیت اس وومن وکیشنل ٹریننگ سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں خواتین معاشی استحکام کی جانب گامزن ہوئیں۔ 

اس سے پہلے پورے قبائلی علاقے میں خواتین کے لیے کوئی بھی وکیشنیل سینٹر نہیں تھا۔ 

 2016 میں اس سینٹر نے شارٹ کورسز جیسے  سلائی کڑھائی، میک اپ، دستکاری، ڈیکوریشن پیسز سے آغاز کیا جس کے بعد اب باقاعدہ طور پر لانگ کورسز جیسے ڈپلومہ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔

لانگ کورسز شروع کرنے کا مقصد یہی تھا کہ قبائلی علاقہ جات کی خواتین کو باآسانی نوکریاں مل سکیں اور دور جدید میں ٹیکنالوجی کی سمجھ بوجھ بھی آجائے۔

یہ قبائلی علاقہ جات کا پہلا وومن وکیشنل سینٹر ہے جو خواتین کو 1500 لے کر تین ہزار روپے تک ماہانہ وظیفہ بھی دیتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی سہولت فری میں فراہم کرتا ہے اور کاروبار شروع کرنے کے لیے قرض اور کاروبار شروع کرنے سے پہلے خواتین کو کاروبار شروع کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے کہ کاروبار کو کیسے مثبت طریقے سے شروع کیا جائے۔

 اس کے ساتھ ساتھ سینٹر کے اساتذہ بچیوں اور خواتین کے کاروبار کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔

وومن وکیشنیل سینٹر کی پرنسپل عنبرین  راشد نے بتایا کہ ہنرمند خواتین ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ  فنی تربیت وقت کی ضرورت ہے، قبائلی علاقہ جات کی خواتین میں بہت ٹیلنٹ ہے مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے خواتین اور بچیوں کو سلائی کڑھائی اور دیگر ابتدائی دستکاری کے فنون سکھانے کے لیے اس سینٹر کا قیام عمل میں لایا۔

عنبرین راشد کہتی ہیں کہ ابتدا میں سال 2016 میں اس سینٹر سے دو سو طالبات فارغ ہوئیں جبکہ 2017 میں مزید 176 خواتین نے  مختلف کورسز کی اسناد حاصل کیں اور زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھتے ہوئے مختلف روزگار کی شروعات کی، جس کی زندہ مثال بخت مینہ اور اس کی بیٹی ہیں۔

’فارغ التحصیل ہونے والی ٹاپ پانچ بچیوں کو ہر سال اس ہی سینٹر میں نوکریاں دی جاتی ہیں اور فارغ ہونے والی بچیوں اور خواتین کو سینٹر کی جانب سے ایک، ایک کٹ دی جاتی ہے تاکہ کاروبار شروع کرنے میں کوئی مسئلہ در پیش  نہ ہو اور ان خواتین کو گھریلوں سطح  پر کاروبار شروع کرنے میں آسانی ہو۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ہمارے ادارے میں ایک  پروڈکشن یونٹ بھی ہے جس میں خواتین اور بچیاں ہاتھوں اور مشینوں کی مدد سے مختلف قسم کے انٹرنیشنل لیول کے کپڑے بناتی ہیں۔ جس کو ہم اپنے پروڈکشن یونٹ میں فروخت کرنے کے لیے رکھتے ہیں،  پر بدقسمتی سے خریدنے والے بہت کم ہیں حکومت کو اس حوالے سے ادارے کی مدد کرنی چاہیے تاکہ زیر تربیت طالبات کی بنائی ہوئی اشیا کو مارکیٹ میں فروخت کرنے میں آسانی ہو۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس سینٹر میں بننے والی مصنوعات کی فروخت کے لیے خواتین مارکیٹ کا قیام بھی عمل میں لایا جائے تاکہ اس مارکیٹ سے لوگ ان اشیا کی خریدو فرخت آسانی سے کر سکیں۔

’حکومت کو چاہیے کہ اس کو گھریلو صنعت کا درجہ دے  یا  بلا سود قرضے یا مالی مدد فراہم کرے تو اس سے ناصرف گھریلو صنعتوں کو فروغ ملے گا بلکہ اس کام کو بیرون ملک برآمد کر کے زرمبادلہ کے ساتھ ساتھ خواتین اچھی کمائی بھی کر سکتی ہیں۔‘

باجوڑ کے موجودہ رکن قومی اسمبلی گل داد خان نے انڈپینڈنٹ اردو  سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین آبادی کا نصف حصہ ہیں، ہمیں انہیں باہنر اور کاروبار میں مواقعے فراہم کرنے ہوں گے۔

’باجوڑ  کی خواتین باہمت ہیں اور وہ اپنے حقوق کے لیے میدان میں نکلی ہیں، خواتین کو خودمختار اور باہمت بناکر ہم ترقی کی منزلیں طے کرسکتے ہیں۔ حکومت باجوڑ میں اس  طرح کے اور ووکیشنل سینٹر کا قیام کرے گی۔ یہ صرف سول کالونی خار تک محدود نہیں ہو گا ہماری کوشش ہو گی کہ پورے باجوڑ میں ہر تحصیل میں ایک ایک وومن وکیشنیل سینٹر بناہیں تاکہ خواتین زیادہ سے زیادہ ہنر سیکھ کراپنا کاروبار شروع کر سکیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر