اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج ارشد ملک کو ہٹانے کا فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو مبینہ ویڈیوز اور آڈیو سامنے آنے کے بعد ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

2

(مسلم لیگ ن ویڈیو سکرین شاٹ)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو مبینہ ویڈیوز اور آڈیو سامنے آنے کے بعد ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس ضمن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ترجمان کے مطابق وزارت قانون کو خط لکھ دیا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی ہدایات پر وزارتِ قانون کو لکھے جانے والے خط میں جج ارشد ملک کی خدمات واپس لینے کا کہا گیا ہے۔

اس سے قبل جج ارشد ملک نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں انہی مبینہ ویڈیوز سے متعلق اپنا بیان حلفی بھی جمع کروایا جس میں انھوں نے تمام الزامات کی تردید کی تھی۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات کی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ویڈیو میں ان کے  بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے ملاقات ہوئی تھی جس میں اس کیس پر تبادلۂ خیال ہوا تھا جبکہ حکومت نے اس کیس سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اسے عدالتی معاملہ قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے  پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز ایک پریس کانفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی کچھ مبینہ ویڈیوز اور آڈیو سامنے لائی تھیں۔

مریم نواز نے اس پریس کانفرنس الزام عائد کیا تھا کہ ’جج کو فیصلہ دینے پر مجبور کیا گیا۔‘

جبکہ دوسری جانب احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود سے منسوب مبینہ ویڈیو کو ’جھوٹی، جعلی اور مفروضہ‘ قرار دیا تھا۔

مریم نواز نے ٹویٹ میں سوال کیا ہے کہ اگر جج کو عہدے سے ہٹایا گیا ہے تو اس جج کے فیصلہ کیسے برقرار رہ سکتا ہے؟

جج ارشد ملک کو ہٹائے جانے کی خبریں آنے بعد اب مبصرین یہ سوال اٹھا رہے کہ اس سب کے بعد جج ارشد ملک کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلوں کا کیا ہوگا۔

ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد آگے کیا ہو گا؟

نیب کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو جج ارشد ملک کو ہٹانے کی وجوہات دیکھنی ہوں گی۔

انھوں نے کہا کہ فی الحال تو ہائیکورٹ کی جانب سے وزارت قانون کو خط لکھا گیا ہے جس میں جج ارشد ملک کی خدمات واپس لینے کا کہا گیا ہے۔

’عدالت میں جب کیس چلے گا تو معلوم ہوگا کہ اس ویڈیو کو عدالت نے کس حد تک تسلیم کیا ہے۔ لیکن جہاں تک قانون کی بات ہے تو عدالت نے ایک کام کر دیا ہے کہ جج کے بیان حلفی اور جواب کو نواز شریف کی بریت کی درخواست کا حصہ بنا دیا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اب عدالتی فائل کا حصہ بنا دیا ہے۔ اب اسے عدالتی طور پر دیکھا جائے گا، یعنی اپیل کے ساتھ تازہ مواد آگیا ہے۔ جب ایک نیا ثبوت اپیل کے ریکارڈ کا حصہ بن گیا ہے اور وہ اسی حوالے سے ہے جس کی بنیاد پر فیصلہ سنایا گیا تھا تو اس کے اس فیصلے پر بڑے سنگین نتائج ہوں گے جو جج ارشد ملک نے سنایا تھا۔‘

عمران شفیق نے مزید کہا کہ اب مسلم لیگ ن کو اس مسئلے پر عدالت سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ’چیف جسٹس نے جب خود اس کو اپیل کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا ہے تو اب مسلم لیگ ن کو درخواست دینے یا ریکارڈ پر لانے کی ضرورت ہی نہیں۔ جج ارشد ملک کے جواب کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا ہے تو اب ویڈیو کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہی۔‘

جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان ریفرنسوں کے خلاف اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے موجود ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان