کیمرے کی مدد سے نابینا افراد کی بینائی جزوی بحال

محققین نے چھ نابینا افراد کے دماغ میں الیکٹروڈز نصب کر کے کیمرے سے لیے گئے ویڈیو امیجز کی براہ راست ان کے دماغ تک ترسیل کے ذریعے جزوی بینائی بحال کر دی۔

اس ٹیکنالوجی سے دونوں آنکھوں اور آپٹک نروو  کو، جو بصری پیغامات کو دماغ تک پہچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں،بائی پاس کیا گیا

کسی نے نہیں سوچا ہو گا کہ ایک ویڈیو کیمرہ کبھی انسانی آنکھ کا نعم البدل ہو سکتا ہے، لیکن امریکہ میں ماہرین کی ایک ٹیم نے اس خواب کو اُس وقت حقیقت میں بدل دیا جب چھ نابینا افراد کے دماغ میں الیکٹروڈز نصب کر کے کیمرے سے لیے گئے ویڈیو امیجز کی براہ راست ان کے دماغ تک ترسیل کے ذریعے ان کی جزوی بینائی بحال کر دی گئی۔

اس انقلابی تحقیق میں ماہرین کی ٹیم عینک پر نصب ویڈیو کیمرے سے لیے گئے عکس کو نابینا افراد کے دماغ میں امپلانٹ کیے گئے الیکٹروڈز کی مدد سے دماغ کے بصری کارٹیکس حصے تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئی جس سے ان نابینا افراد کی بصارت میں اتنی بہتری واقع ہوئی جو اس سے پہلے ناممکن تصور کی جاتی تھی۔

اس ٹیکنالوجی سے دونوں آنکھوں اور آپٹک نروو (بصری اعصاب) کو، جو بصری پیغامات کو دماغ تک پہچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، بائی پاس کیا گیا۔

یونیورسٹی کالج لندن کے لیکچرر اور آپٹیگرا آئی ہاسپٹل کے سرجن ایلکس شارٹ نے امریکی ٹیم کی اس کامیابی کو نابینا افراد کے لیے نہایت اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔

ڈیلی میل سے بات کرتے ہوئے شارٹ کا کہنا تھا: ’اس سے قبل تمام کوششیں صرف مصنوعی یا بائیونک آئی بنانے اور اس کو آنکھ میں امپلانٹ کرنے کے بارے میں کی گئی تھیں۔ اس کے لیے آپ کی آنکھ اور بصری اعصاب کا کام کرنا لازمی تھا، لیکن آنکھ کو مکمل طور پر بائی پاس کرنے سے آپ نے بہت سے [نابینا] افراد کے لیے امید کے دروازے کھول دیے ہیں۔‘

’یہ مکمل نابینا افراد کے علاج کا بالکل مختلف طریقہ ہے۔ یہ امید کا حقیقی پیغام ہے۔‘

ابھی تک کوئی بھی ٹیکنالوجی پیدائشی نابینا افراد کے لیے موثر ثابت نہیں ہوئی ہے۔ امریکی ٹیم نے، جس میں بیلر میڈیکل کالج ٹیکساس اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس کے ماہرین شامل تھے، اس تحقیق کے دوران کئی سالوں سے بصارت سے مکمل طور پر محروم افراد سے سیاہ کمپیوٹر سکرین پر وقفوں سے ظاہر ہونے والے سفید ڈبوں کی نشاندہی کرنے کو کہا تو ان میں سے اکثر نے درست طور پر سفید ڈبوں اور ان کے مقامات کی پہچان کر لی۔

پاؤل فلف نے، جو ایک دہائی سے اپنی بینائی کھو چکے تھے، کہا کہ اس عینک کو پہن کر جب وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ شام کو چہل قدمی کرنے باہر گئے تو وہ گھاس اور پگڈنڈی کے درمیان تمیز کر پا رہے تھے۔ اب وہ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ گھر میں سفید صوفہ کس جگہ موجود ہے۔

’کسی چیز کو دیکھنے کے قابل ہونے کا احساس حیرت انگیز ہے، اگرچہ اب تک یہ محض روشنی کے کچھ نشانات ہی ہیں۔‘

اس تحقیق کے سربراہ اور نیورو سرجن ڈینئل یوشر کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم ابھی اس کامیابی سے بہت دور ہے جس کی وہ امید کر رہے ہیں۔ ’یہ نیورو سائنس اور نیورو ٹیکنالوجی کے لیے اہم پیش رفت ہے اور میرا خیال ہے کہ میری زندگی میں ہی ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ نابینا افراد کی نظر معمول کے مطابق فعال ہو جائے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق