بیان حلفی یا عظمتوں کا خلاصہ؟

مافیا کو یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ جج ارشد ملک ناقابل خرید ہیں مگر چونکہ مافیا پرلے درجے کے احمقوں سے بھرا ہے لہذا اس کے کارندے ان فیصلوں کے بعد ان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے جو ان کو فیصلوں سے پہلے شاید استعمال کرنے چاہیے تھے۔

کیا شاندار انسان ہیں جج ارشد ملک۔ اصول پسند، دیانتداد، نامساعد حالات میں انصاف کا ترازو برابر رکھ کر دنیا کی فکروں سے منہ موڑتے ہوئے عدل کرنے والے یہ شخص اب اپنی عظمت کی دلیلیں ہر طرف پھیلا رہے ہیں۔ یہ اعجاز ہے ان کی ایمان افروزی کا کہ انہوں نے کمال احسن طریقے سے اتنے ’بڑے مافیا‘ سے ٹکر لی اور ایک طویل مشکل وقت کاٹنے کے بعد اپنے ضمیر کے سامنے سرخرو ہوئے۔

اپنی نیکیوں کے باعث یہ شریر لوگوں کے خلاف فتح حاصل کریں گے اور عدل و انصاف کا بول بالا کرتے ہوئے یقیناً سعید کہلائیں گے۔

ان کا بیان حلفی بےمثال قانونی دستاویز ہے۔ اس میں بعض جگہوں پر دیو مالائی داستان کا گمان تو ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کا ایک ایک حرف سچ میں ڈوبا ہوا ہے لہٰذا اس کو جج ارشد کے عشق انصاف کے خلاصے کے طور پر پڑھنا چاہیے۔

اس تحریر میں درج شدہ بیان چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ جج ارشد ملک استقامت کا پیکر ہیں۔ اب یہ محض اتفاق ہے کہ ن لیگ کی کسی بااثر شخصیت نے ان کو فروری 2018 میں احتساب عدالت نمبر 2 اسلام آباد میں تعینات کروایا۔ اور پھر 2 اگست 2018 میں فلیگ شپ ریفرنس اور ایچ ای ایم ریفرنس سماعت کے لیے انہی کی عدالت میں منتقل کر دیا گیا۔ اگرچہ یہ ناقابل یقین لگتا ہے مگر یہ جج ارشد کا بیان حلفی ہے اور یقینا درست ہو گا۔

بیان حلفی دو شرپسند عناصر ناصر جنجوعہ اور مہر جیلانی کے کرتوتوں سے بھی بھرا ہوا ہے۔ یہ دو کردار اس دوران بار بار جج ارشد ملک کے ایمان کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن جواباً ان کو یہ صوفیانہ جملہ سننے کو ہی ملا: ’انصاف اللہ کا منصب ہے اور اللہ ناانصافی نہیں کرتا۔‘ اور پھر رشوت کی ابتدائی ترغیب کو جج ارشد ملک نے جس انداز سے ٹھوکر ماری وہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔ دس کروڑ روپے (شاید یہ کتابت کی غلطی ہو گی، اس کو دس کروڑ ڈالر ہونا چاہیے تھا) بصورت یورو اور دو کروڑ روپے فوری ادائیگی۔۔۔ مگر اس پر اس مرد حق نے اپنے چھ مرلے کے مکان کے حوالے کو بطور ڈھال استعمال کیا اور اس طرح یہ شیطانی وار بھی رائیگاں گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد میں جسمانی نقصان کی دھمکیاں آئیں۔ ناصر بٹ نے یہ اعتراف کیا کہ وہ نواز شریف کی طرف سے  قتل کے چار، پانچ مقدمات میں مجرم ہونے کے باوجود خود کو بچانے کے احسان کا بدلہ چکانا چاہتا ہے۔ یہ دھمکی بھی جج ارشد ملک کے قدم نہ اکھاڑ سکی۔ اس نے دھڑلے سے فیصلہ دیا۔ ایچ ایم ای ریفرنس میں نواز شریف کو سزا سنائی اور فلیگ شپ ریفرنس میں بری کر دیا۔

اس کے بعد مافیا کو یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ جج ارشد ملک ناقابل خرید ہے اور اس کا انصاف ناقابل فروخت۔ مگر چوں کہ مافیا پرلے درجے کے احمقوں سے بھرا ہوا ہے لہٰذا اس کے کارندے ان فیصلوں کے بعد ان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے جو منطقی طور پر ان کو فیصلوں سے پہلے شاید استعمال کرنے چاہیے تھے۔ وہ نواز شریف کو سزا کے بعد محض اطمینان دلانے کے لیے جج ارشد ملک کا یہ پیغام ریکارڈ کرنا چاہتے تھے کہ جج نے فیصلہ دباؤ میں دیا تھا۔ وہ گندی، نیچ اور گھٹیا بلیک میلنگ پر اتر آئے۔ اور ایک مرتبہ حیرت انگیز طور پر جج صاحب کے عدم تعاون کے باوجود اس کی آواز ریکارڈ بھی کر لی۔

جج ارشد ملک کو تحریف شدہ غیراخلاقی ویڈیو بھی دکھائی گئی جو تحریف شدہ ہونے کے باوجود اتنی موثر تھی کہ جج ارشد ملک وقتی لچک دیکھانے پر مجبور ہو گئے۔ (ہمیں یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ یہ غیراخلاقی ویڈیو ایک ڈھکوسلہ ہے اور جج کے سر تھوپا گیا ہے) اس کے بعد جج نے اپنے فیصلے کے نتائج کے حوالے سے ان شرپسندوں کو اپیل کے لیے مشورے دیے، اور بادل نخواستہ اپنی طرف سے رائے زنی بھی کر دی۔

اس بیان حلفی میں آپ جج ارشد ملک کی اس اعلی ظرفی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جس کا مظاہرہ انہوں نے نواز شریف سے جاتی امرا اور حسین نواز سے سعودی عرب میں مسجد نبوی کے باہر ملاقات کے دوران کیا۔ یہ کتنا بڑا پن ہے کہ نواز شریف کو سزا سنانے کے بعد جج ارشد ملک خود چل کر جاتی امرا پہنچے اور اپنے ہاتھ سے مجرم قرار دیے جانے والے شخص کو دیر تک سمجھاتے بجھاتے رہے۔ اسی طرح حسین نواز کی طرف سے 50 کروڑ روپے (یہ بھی کتابت کی غلطی لگتی ہے۔ یہ ضرور 50 کروڑ ڈالرز ہوں گے) اور بہترین زندگی کے لالچ کو کمال ذہانت سے ملامت کیے بغیر ایک طرف کر دیا۔

وہ کیسے عظیم شخص ہوں گے جو عبادات میں سے وقت نکال کر دنیاوی فضولیات کے لیے صرف اس وجہ سے وقفہ کر لے کہ شاید گمراہ مافیا کے یہ ہرکارے راہ راست پر آ جائیں۔ آپ اس تحمل اور ضبط کی بھی کھل کر داد دیں گے جو جج صاحب نے اس دوران اپنایا۔ وہ نواز شریف اور اس کی ایما پر دھمکیوں اور رشوت ستانی کا بازار گرم کرنے والوں کو بیچ عدالت الٹا لٹکا سکتے تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے نگران جج اور ان کے زیر انتظام چلنے والے ہائی کورٹ کے کسی بھی سینیئر ساتھی کو اعتماد میں لے سکتے تھے۔ وہ ایک پریس ریلیز جاری کر سکتے تھے۔ بیان حلفی جمع کروا سکتے تھے۔ نواز شریف کو اس کے شرپسند پرکاروں سمیت ’تن‘ کے رکھ سکتے تھے۔ لیکن آفرین ہےاس شخص پر۔ تمام قدرت رکھنے کے باوجود اس نے ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا۔ نہ شکایت کی اور نہ اپنا قانونی حق استعمال کیا۔ حتی کہ اپنے عہدے کے حلف کے الفاظ کو بھی ذہن سے کھرچ دیا۔

یہ سوچ کے ہول اٹھتے ہیں کہ جج ارشد ملک نے تن تنہا کیسے کیسے معرکے سر کیے۔ انہوں نے اپنے نصب العین کو برائی کے سمندر میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے ہوں گے۔ وہ کیا سعی ہو گی جو اس کو بپھری موجوں میں سے نکال کر اطمینان کے اس ساحل پر لے آئی جہاں سے آخرت میں سرخرو ہونے کے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور قبر کے حساب سے بچنے کا اعتماد جنم لیتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جج ارشد ملک تسبیح کے ساتھ ساتھ دل گرمانے کے لیے یہ شعر بھی پڑھتے ہوں:

کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل
قدرت تری ہم نفس ہے اے دل

یہ بیان حلفی نہیں بلکہ جج ارشد ملک کے کارناموں کی وہ تفصیل ہے جو نئے پاکستان میں قانون کے ہر طالب علم کو پڑھنی چاہیے تاکہ وہ بھی فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کی طرح آئینی نور میں ڈوب سکیں۔ جج ارشد ملک محاورتی ہیرے کی انسانی شکل ہیں۔ شرافت کے پتلے، مجسم نیکی، انصاف کے مہاتما۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ ان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

اس سے زیادہ بڑی خفت یہ ہے کہ ان کا گریڈ محض 21 ہے۔ اگر ممکن ہو تو ان کی قربانیوں کے پیش نظر 21 کو 210 میں تبدیل کر دینا چاہیے بلکہ 210 کا دگنا زیادہ مناسب ہو گا۔ بہرحال نئے پاکستان کے آسمان پر اس ثاقب کو ثابت رہنا چاہییے۔ اس پر نثار ہونے والوں کو اس کی مالا جپنی چاہیے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری قومی بےچینیوں کو دور کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ہم نے تین سال میں اس ملک کی تقدیر بدلتے ہوئے دیکھی ہے۔ اب صرف تین سال مزید درکار ہیں۔ اس کے بعد ہر گھر سے ایسا ہی جج نکلے گا۔

آئندہ تین سال میں ہمارا نظام انصاف ایک روشن مینار کی طرح دوسرے ممالک کے لیے مثال ہو گا۔ اس دوران اس ملک کی تاریخ یکساں اوصاف رکھنے والے دو ناموں سے جانی جائے گی۔۔۔ ایک جج ارشد ملک اور دوسرا وینا ملک۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ