’کرتارپور راہداری کی خاطر پربندھک کمیٹی سے علیحدگی کا فیصلہ قبول‘

پاکستانی سکھ گوپال سنگھ چاولہ کو خالصتان تحریک سے مبینہ تعلق کے بھارتی اعتراض کے بعد پربندھک کمیٹی سے علیحدہ کر دیا گیا۔

گوپال سنگھ چاولہ پی ایس جی پی سی کے ان پانچ سابقہ اراکین میں شامل ہیں جنہیں بھارت نے فارغ کرنے کا مطالبہ کیا تھا (فیس بک)

بھارتی اعتراض کے بعد پاکستان سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی (پی ایس جی پی چی) سے علیحدہ کیے گئے پاکستانی سکھ گوپال سنگھ چاولہ نے خود کو کمیٹی سے ہٹائے جانے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرتارپور  راہداری منصوبے کی کامیابی کے لیے انہیں یہ فیصلہ منظور ہے۔  

چاولہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہاں، میرا خالصتان تحریک سے تعلق ہے، ہم آزادی مانگتے ہیں، سکھوں کے حق کی بات کرتے ہیں، خالصتان تحریک ایک سوچ ہے جو کبھی مر نہیں سکتی۔‘

پی ایس جی پی سی پاکستان میں سکھوں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال کے علاوہ سکھ شہریوں کی فلاح و بہبود کی ذمہ دار تنظیم ہے۔ پاکستان حکومت نے کرتارپورراہداری کے مکمل ہونے کے بعد بھارت سے آنے والے سکھوں کی سہولت کاری کی ذمہ داریاں بھی پی ایس جی پی سی کو دے رکھی ہیں۔

چاولہ پی ایس جی پی سی کے ان پانچ سابقہ ارکان میں شامل ہیں جنہیں بھارت نے فارغ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بھارت کو ان پانچ افراد پرسکھوں کی علیحدگی پسند تنظیم ’خالصتان تحریک ‘سے تعلق اور مبینہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کے باعث اعتراض تھا۔

پی ایس جی پی سی کے جن چار دوسرے سابق ارکان پر بھارت نے اعتراض اٹھایا تھا ان میں بشن سنگھ، نرمندر سنگھ، نارو سنگھ اور کلجیت سنگھ شامل تھے۔

اتوار کو آٹھ رکنی بھارتی وفد واہگہ سرحد کے راستے پاکستان پہنچا جہاں اس نے پاکستانی وفد سے مذاکرات کیے۔

ان مذاکرات سے صرف دو روز قبل (جمعے کو) پاکستانی وفاقی وزارت مذہبی امور نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے پی ایس جی پی سی کے تمام اراکین کو تبدیل کر دیا۔

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں چاولہ نے کہا کہ انہیں بہت افسوس ہوا کہ انہیں بھارت کے مطالبے پر پی ایس جی پی سی سے علیحدہ کیا گیا۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا پاکستان کے اندرونی معاملات سے متعلق فیصلے بھی بھارت کرے گا؟

تاہم، انہوں نے خالصتان تحریک سے اپنے تعلق کی تردید نہیں کی اور کہا:’ خالصتان تحریک نے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ یہ تو صرف آزادی کی تحریک ہے۔‘

مبینہ دہشت گردی کے بھارتی الزام سے متعلق سوال پر انہوں نےکہا:’ میں نے کوئی دہشت گردی نہیں کی، کسی کا قتل نہیں کیا، کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، کیا میں مودی جیسا دہشت گرد ہوں؟ جس کے ہاتھوں پر ہزاروں مسلمانوں کا خون ہے، مجھے بتایا جائے میں نے کیا دہشت گردی کی ہے؟‘

تاہم انہوں نے کہا وہ کرتارپور راہداری پراجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے یہ فیصلہ قبول کرتے ہیں۔ ’میرے اور تمام پاکستانی سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری اہم ہے، یہ ہماری عبادت کا مسئلہ ہے، اس کے سامنے میری رکنیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔‘

عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ صاحب سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا چاولہ کو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ پی ایس جی پی سی سے علیحدہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا: ’بھارت انہیں اور کچھ دوسرے اراکین کو سکیورٹی کلئیرنس نہیں دے رہا تھا اور اسی لیے انہیں ہٹا دیا گیا۔‘

رکن پنجاب اسمبلی رمیش ویر جی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ’کسی سکھ کی پی ایس جی پی سی سے علیحدگی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اہم نہیں رہا، وہ ہماری برادری سے ہیں اور ہم سکھوں کی فلاح کے لیے ان سے مشورہ جاری رکھیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستانی سکھوں کے لیے سب سے اہم چیز کرتارپور راہداری ہے۔’ ہم اس پراجیکٹ کو چند افراد کی رکنیت کی وجہ سے خراب نہیں ہونے دیں گے۔‘

ان کا خیال تھا کہ کرتار پور راہداری میں سکھوں کے فائدے کے علاوہ دونوں ملکوں کے قریب آنے کے مواقعے بھی موجود ہیں۔’اسی لیے میں سجھتا ہوں کہ کسی کو بھی پی ایس جی ی سی کی تشکیل نو یا کسی کے فارغ ہونے پر اس وقت اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔‘

سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی کیا ہے؟

ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستانی علاقوں میں آباد ہندووں اور سکھوں کی بڑی تعداد ہندوستان منتقل ہوئی۔ پاکستان میں ان کی رہ جانے والی جائدادوں اور تعلیمی، مذہبی اور خیراتی اداروں کے دیکھ بھال ایویکیوئی ٹرسٹ پراپرٹی بورڈکی ذمہ داری ہے۔

اسی بورڈ کے ما تحت پاکستان سکھ گرودوارہ پرابندھک کمیٹی کام کرتی ہے جس کی ذمہ داریوں میں سکھوں کے مذہبی مقامات اور دوسرے اداروں کو چلانا، ان کی دیکھ بھال اور پاکستان میں سکھ برادری کی فلاح و بہبود شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کمیٹی وفاقی حکومت تشکیل کرتی ہے اور اس میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے سکھوں کے نمائندوں شامل کیے جاتے ہیں۔

کمیٹی کے کنوینر اور سیکریٹری کی ذمہ داریاں ایویکیوئی ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ کے سینئیر اہلکار سر انجام دیتے

 ہیں، جبکہ وفاقی وزارت مذہبی امور کے ایک افسر بھی اس میں بحیثیت رکن شامل ہوتے ہیں۔

البتہ سکھوں کی بین الاقوامی سطح پر موجود سکھ گرودوارہ پرابندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) پاکستانی کمیٹی کو پاکستان میں سکھوں کی نمائندہ نہیں مانتی۔ ایس جی پی سی ساری دنیا بھر کے سکھوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔

بھارت میں سکھوں کی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال کے لیے حکومتی اثر سے آزاد شیرومانی گرودوارہ پرابندھک کمیٹی قائم ہے۔

کرتارپور راہداری کیا ہے؟

سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال راوی کے دائیں کنارے گذارے۔ جہاں انہوں نے کرتارپور نامی قصبے کی داغ بیل ڈالی۔یہیں ان کی وفات کے بعد مسلمانوں اور ہندووں نے ان کی یادگاریں تعمیر کی جو دریائے راوی کا رخ تبدیل ہونے کے باعث بہہ گئ۔

ان کے بیٹے نے بابا گرونانک کی راکھ دریائے راوی کے بائیں کنارے دفن کی۔ اور اس مقام کو ڈیرہ بابا نانک صاحب کا نام دیا گیا۔

بعد میں ان کے مقام وفات پر گرودوارہ دربار صاحب کرتارپور تعمیر کیا گیا۔

ہندوستان کی تقسیم کے باعث راوی کے دائیں کنارے واقع علاقے (شکر گڑھ تحصیل بشمول کرتار پور) پاکستان کے حصے میں آئے، جبکہ بائیں کنارے واقع گورداس پور تحصیل ہندوستان کو ملی۔

یوں اس وقت ڈیرہ بابانانک صاحب بھارت اور گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور پاکستان میں واقع ہیں۔یہ دونوں مقامات سکھ مذہب میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔

اسی لیے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے ان دونوں جگہوں کے درمیان ایک راستہ بنانے کا فیصلہ کیاجسے کرتارپور راہداری کا نام دیا گیا ہے۔راہداری کی تعمیر اسی سال نومبر تک مکمل کر لی جائے گی۔

بھارت اور دنیا بھر سے لاکھوں سکھ مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے تقریباً پانچ کلو میٹر طویل راہداری کو عبور کرتے ہوئے پاکستان میں گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور آئیں گے۔

’ کرتارپور راہداری کی کامیابی کے لیے پی ایس جی پی سی سے علیحدگی کا فیصلہ  قبول ہے‘

بھارت کے اعتراض کے باعث پاکستان سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی سے علیحدہ کیے گئے پاکستانی سکھ گوپال سنگھ چاولہ  کا کہنا ہے کہ’ خالصتان تحریک نے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان