چاقو کے 60 وار سہنے والی جاپانی گلوکارہ کا حکومت پر مقدمہ

ٹوکیو میٹرو پولیٹن گورنمنٹ پر دائر مقدمے میں میو ٹومیٹا نے کہا ہے کہ انہوں نے پولیس کو کئی بار ایک خبطی مداح سے خطرے کی اطلاع دی لیکن انہوں نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

ایک بیان میں میو ٹومیٹا نے کہا: ’ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب میں اس حملے، اس واقعے کے بارے میں نہیں سوچتی ہوں۔ میں اس امید پر اپنا مقدمہ لڑ رہی ہوں کہ عدالت مستقبل میں ایسے واقعات کو روک کر مزید افراد کو اس کا شکار ہونے سے محفوظ رکھ سکے۔‘ (ٹوئٹر)

ایک خبطی مداح کے ہاتھوں چاقو کے 60 وار سہنے والی جاپانی پاپ سٹار میو ٹومیٹا نے اپنی حفاظت یقینی نہ بنانے پر حکومت پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔

مئی 2016 میں میو ٹومیٹا اس وقت ٹوموہیرو اوازاکی کے حملے کا نشانہ بنی جب وہ دارالحکومت ٹوکیو کے قریب منعقد ایک کنسرٹ کی طرف جا رہی تھیں۔

حملے کے وقت ٹومیٹا صرف 20 سال تھیں اور انہیں اسی عمارت کے باہر حملے کا نشانہ بنایا گیا جہاں انہوں نے پرفارم کرنا تھا۔

گذشتہ بدھ کو انہوں نے ٹوکیو ڈسٹرکٹ میں ٹوکیو میٹرو پولیٹن گورنمنٹ پر سات کروڑ 60 لاکھ جاپانی ین کا مقدمہ دائر کیا۔ مقدمے میں ان کے سابقہ ایجنٹ اور حملہ آور کو بھی فریق بنایا گیا۔ حملے سے پہلے ٹومیٹا نے پولیس کو اس بارے میں اطلاع دی تھی کہ مداح ٹوموہیرو اوازاکی نے انہیں شادی کی پیشکش کی تھی جس سے انہوں نے انکار کیا تھا اور ٹوموہیرو کے بھیجے گئے تحفے بھی واپس لوٹائے تھے، جس کے بعد ٹوموہیرو نے انہیں 140 پیغامات بھیجے جن میں قتل کی دھمکیاں بھی شامل تھیں۔

حملے سے دو ہفتے قبل میو ٹومیٹا نے پولیس سے رابطہ کر کے اپنی تحفظ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا لیکن، ٹومیٹا کے مطابق، پولیس کی جانب سے کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پولیس کے مطابق انہیں اوازاکی سے کسی قسم کا کوئی فوری خطرہ نہیں تھا۔

میو ٹومیٹا نے اپنی پرفارمنس سے دو روز پہلے بھی پولیس کو اطلاع دی لیکن انہیں اضافی سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔

مقدمے کے دوران دی جانے والی ایک گواہی کے مطابق چاقو کے وار کرتے ہوئے اوازاکی مسلسل ’تمہیں مرنا ہوگا، مرنا ہوگا، مرنا ہوگا‘ چلا رہے تھے۔ اوازاکی نے ٹومیٹا کے سینے، گردن، بازوؤں اور پیٹھ پر وار کیے لیکن ان کے وکلا کی جانب سے یہ موقف لیا جا رہا ہے کہ ان کا مقصد ٹومیٹا کو قتل کرنا نہیں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد ٹومیٹا بے ہوش ہو گئیں۔ ان کی وکیل مساتو تاکاشی کے مطابق حملے کے بعد سے ٹومیٹا نظر کی کمزوری اور زہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ تاکاشی کے مطابق یہ حملہ آسانی سے روکا جا سکتا تھا اگر پولیس اس سلسلے میں بروقت کارروائی کرتی۔

ایک بیان میں ٹومیٹا نے کہا: ’ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب میں اس حملے، اس واقعے کے بارے میں نہیں سوچتی ہوں۔ میں اس امید پر اپنا مقدمہ لڑ رہی ہوں کہ عدالت مستقبل میں ایسے واقعات کو روک کر مزید افراد کو اس کا شکار ہونے سے محفوظ رکھ سکے۔‘

ان کی وکیل تاکاشی جو خود بھی پاپ آئڈیل شوز اور بچوں کے ٹی وی پروگرامز کا حصہ بن چکی ہیں ان کے مطابق پولیس کا رویہ ’لاپرواہی پر مبنی‘ ہے۔

حملے کے باعث ٹومیٹا کو چار ماہ ہسپتال میں گزارنے پڑے۔ انہیں ابھی مزید سرجری درکار ہے۔ ان کی بائیں آنکھ کی بینائی بھی جزوی طور پر متاثر ہوئی ہے۔ انہیں کھانے اور گانے میں مسائل درپیش ہیں جبکہ ان کے ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہیں۔

حملہ آور اوازاکی کو فروری میں 14 سال چھ ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔

جمعے کو ٹوکیو میٹروپولیٹن نے سی این این کو بتایا کہ مقدمے کے قانونی دستاویزات ملنے تک وہ اس پر کوئی موقف نہیں دے سکتے۔

ٹومیٹا پر حملے کے بعد جاپان نے دھمکی آمیز پیغامات اور متشدد آن لائن کمنٹس کے بڑھتے ہوئے رجحان کے حوالے سے قوانین میں سختی لائی ہے۔

2011 میں پولیس کو ہراساں کرنے کی 14 ہزار چھ سو 18 شکایات موصول ہوئیں جس کے بعد 351 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا، جبکہ گذشتہ سال یہ سطح بلند ترین رہی جس میں 77 ہزار چار سو 80 شکایات کی گئیں جبکہ گرفتاریوں کی تعداد 926 رہی۔

’می ٹو‘ مہم کے سامنے آنے کے بعد سے جاپان عوامی طور پر پائی جانے والی صنفی عدم مساوات سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے۔

جاپان میں جنسی ہراسانی کے واقعات عام ہیں۔ ملازمت پیشہ ایک ہزار خواتین سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطاق ان میں سے 42.5 فیصد جنسی ہراسانی کا سامنا کر چکی ہیں اور 60 فیصد کے مطابق انہوں نے اس معاملے کو رپورٹ نہیں کیا۔

جاپان صنفی مساوات کے معاملے میں جی سیون ممالک میں سب سے آخر میں ہے۔ گذشتہ سال کئی میڈیکل یونیورسٹرز کی جانب سے بھی اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ ان کی جانب سے داخلہ امتحانات میں خواتین امیدواروں کو جان بوجھ کر باہر رکھا جاتا ہے۔ 

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین