تیونس کا ہم جنس پرست صدارتی امیدوار اور شدت پسندی

ایک سروے کے مطابق تیونس میں صرف سات فیصد لوگ ہم جنس پرستی کو قابل قبول سمجھتے ہیں۔

میں اعلانیہ خود کو ہم جنس پرست کہتا ہوں، میں نے بیس سال پہلے اس کا اعلان کیا: باتور  (روئٹرز)

منیر باتور کا آفس بہت شاندار ہے۔ ائیر کنڈیشنر سے آنے والی خنک ہوا تیونس میں جاری گرمی کی لہر کے دوران سکون کا باعث بن رہی ہے۔ یہاں دوپہر کے بعد کوئی باہر نہیں نکلتا، گلیاں خالی ہیں اور اس گنجان آبادی والے شہر میں موجود بلیوں کی بڑی تعداد سائے میں دبکی بیٹھی ہے۔

سخت گرمی کے باوجود باتور اپنے مقصد پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ وہ کسی مسلمان ملک میں انتخاب لڑنے والے پہلے اعلانیہ ہم جنس پرست صدراتی امیدوار ہیں۔

نومبر میں شیڈول انتخابات کا راستہ اتنا ہموار نہیں۔ تیونس میں ہم جنس پرستی غیر قانونی نہیں لیکن اس میں ملوث ہونا جرم ہے۔ اسی فرق نے باتور کو، جو ایک وکیل بھی ہیں،اجازت دی ہے کہ وہ شمس نامی ایک پریشر گروپ رجسٹر کروا سکے ہیں۔

وہ کچھ اور لوگوں کے ساتھ مل کر نوآبادیاتی دور کے فرانسیسی قانون کو بدلنا چاہتے ہیں جس کے مطابق ہم جنس پرستی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

اسی طرح ہم جنس پرست اور ٹرانسجینڈرز (ایل جی بی ٹی ) کے خلاف استعمال ہونے والا قانون بھی جس کے مطابق ’عوامی مقام پر غیر مناسب رویہ ‘ اپنانے پر دی جانے والی سزائیں بھی باتور اور باقی مہم چلانے والوں کی نظر میں ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ پولیس کی جانب سے بارہا استعمال کیے جانے والا قانون جس کے مطابق کسی کا جنسی رجحان جاننے کے لیے اس کا جسمانی معائنہ کرنا شامل ہے، اہم معاملات کو نظر انداز کرنے والی پولیس اور سیاسی اشرافیہ نے اس معاملے پر مکمل چپ سادھ رکھی ہے۔

فروری میں دو افراد کے ہاتھوں ریپ کا نشانہ بننے والے سفاکس شہر کے ایک نوجوان کو ہم جنس پرستی کے جرم میں آٹھ ماہ کی سزا سنائی گئی۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پر خلاف ورزیوں کی تعداد بھی کثیر ہے۔

باتور کہتے ہیں: ’میں اعلانیہ خود کو ہم جنس پرست کہتا ہوں۔ میں نے بیس سال پہلے اس کا اعلان کیا۔ مجھے 2013 میں ہم جنس پرستی کے جرم میں تین ماہ کی سزا سنائی گئی۔ میرے لیے یہ کوئی شرمندگی کی بات نہیں۔ یہ کسی کے لیے بھی شرمندگی کی بات نہیں ہونی چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

باتور، ان کی ایسوسی ایشن اور ان کی نسبتا لبرل جماعت 2011 کے انقلاب کی پیدوار ہیں۔ انقلاب کے فوری بعد ہم جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ کرنے والے گروپس بڑی تعداد میں منظر عام پر آئے، جن میں باتور کی سربراہی میں شمس بھی شامل تھا جو ہم جنس پرستی کے خلاف موجود قوانین کا خاتمہ چاہتا ہے۔

تاہم اس کے باجود شمس تقسیم کا باعث بھی بن رہا ہے۔ گذشتہ سال ایل جی بی ٹی کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کچھ گروپس نے شمس اور اس کے صدر سے اظہار لاتعلقی کیا۔ باتور اس کی وجہ ان کے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھنے کے موقف کو قرار دیتے ہیں۔ تیونس کے بائیں بازو کے لیے یہ ناقابل قبول ہے۔

عین اس وقت جب یہ گروپس تیونس میں مضبوط ہو رہے ہیں تو ان کے ساتھ ساتھ ملک میں مذہبی شدت پسندی بھی زور پکڑ رہی ہے۔ معتدل سمجھی جانے والی انہدا پارٹی نے شدت پسند جماعت انصار الشریعہ کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے جس کا مقصد ملک کی سیاسی اکثریت کے مفادات کا تحفظ ہے۔

انصار الشریعہ کو 2013 میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ 2011 کے آزادانہ انتخابات کے بعد حاصل ہونے والی انہدا کی مقبولیت میں بھی واضح کمی ہوئی ہے۔

تیونس کے کئی طبقات میں زیادہ تر اقدار روایات سے مستعار لی جاتی ہیں۔ گذشتہ اگست قدامت پسند مردوں اور عورتوں کے مشترکہ احتجاج میں صدارتی مینڈیٹ رپورٹ کے خلاف مزید شخصی آزادیوں اور صنفی مساوات کا مطالبہ کیا گیا۔

تاہم ہم جنس پرستی کے بارے میں قدامت پسندوں کی خیالات کافی پرانے ہیں۔ جون 2016 میں عرب بیرو میٹر کے ایک سروے کے مطابق تیونس میں صرف سات فیصد لوگ ہم جنس پرستی کو قابل قبول سمجھتے ہیں۔

باتور کے مخالف امیدواروں کی جانب سے الیکشن مہم میں بھی اسی سوچ کی عکاسی کی جا رہی ہے۔ ماہر قانون قیس سعید جو صدارتی دوڑ میں کم فرق سے دوسرے نمبر پر دیکھے جا رہے ہیں، ان کے مطابق ملک میں ہم جنس پرستی کا فروغ دراصل بیرونی سازش ہے۔

باتور کہتے ہیں:’ ہمیں اب تیونس میں ہم جنس پرستی کے بارے میں کھل کر بات کرنی ہوگی۔‘ باتور اپنی شناخت بطور مسلمان کرواتے ہیں لیکن وہ باعمل مسلمان نہیں۔

باتور کا کہنا ہے ’ہم تیونس میں ہم جنس پرستی کو فروغ نہیں دینا چاہتے، ہم صرف چاہتے ہیں اس کو جرم نہ سمجھا جائے۔ ہم جنس پرست افراد کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ انہیں آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے جسم سے جو چاہے کریں۔ جیسے کہ قیس سعید کہتے ہیں ہم جنس پرستی ایک بیماری ہے تو میں پوچھنا چاہوں گا کہ پھر بیماروں کو جیلوں میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ جب آپ ہم جنس پرستوں کو سالوں تک قید کریں گے تو کیا وہ اس سے تائب ہو جائیں گے؟ نہیں۔ تو کیا وہ مزید تین سال یا پوری زندگی جیل میں رہیں گے؟‘

باتور اپنے موقف کے حق میں دلیل دیتے ہیں کہ آزادی کے بعد ملک کے پہلے صدر حبیب بورگیوبا نے 1956 میں چار شادیوں پر پابندی اور خواتین کے حقوق کے لیے اہم قوانین رائج کیے جو آج تک موجود ہیں۔

باتور کہتے ہیں: ’اس وقت وہ سب بھی متنازع ہوا کرتا تھا، بہت سے لوگوں نے کہا یہ اسلام کے خلاف ہے لیکن بورگیوبا نے سیاسی قوت سے اس پر عمل کروایا۔ 1956 میں تیونس آج سے زیادہ قدامت پسند تھا لیکن لوگوں نے اس کو قبول کیا اور آج بھی کرتے ہیں۔‘

اپنی الیکشن مہم ایل جی بی ٹی حقوق پر مرکوز ہونے کے باوجود باتور زور دیتے ہیں کہ ان کا امیدوار بننا صرف اس معاملے پر منحصر نہیں بلکہ وہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ چاہتے ہیں۔

وہ تیونس کے کئی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں جن میں زبوں حال معاشی صورتحال، ملکی معاشی نظام سے غیر منسلک معیشت، ماحولیاتی بہتری وغیرہ، یہ سب معاملات ان کی ترجیحات میں شامل ہیں، لیکن سب سے بڑھ کر ان کا کہنا ہے کہ وہ شخصی آزادیوں اور معاشرتی حقوق کو یقینی بنائیں گے۔

باتور کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے لیکن ان کے لیے یہ لڑائی لڑنا بھی بہت بڑی بات ہے۔ ان کی مہم نے باقی امیدواروں کو بھی مجبور کیا ہے کہ وہ تیونس میں شخصی حقوق اور معاشرتی آزادی میں ترقی نہ ہونے جیسے موضوعات پر بات کر رہے ہیں۔

باتور کا کہنا ہے: ’میں اس موضوع کو اس انتخابی مہم کا مرکزی حصہ بنا دوں گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا