ٹرمپ کی نسل پرست ٹویٹس کا نشانہ بننے والی ارکان کانگریس بول پڑیں

الیگزینڈریا اوکازیو کورٹیز، الہان عمر، ایانا پریسلے اور راشدہ طلیب نے امریکی عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے’ اس چارے پر منہ نہ ماریں۔‘

الہان عمر، جن پر امریکی صدر نے یہودی مخالف اور القاعدہ کا حامی ہونے کا الزام لگایا ہے، نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام قوم پرستی کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں (اے ایف پی) 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نسلی حملوں کے سلسلے کا ہدف بننے والی ڈیموکریٹک پارٹی کی چارخاتون ارکان کانگریس نے امریکی عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ’اس چارے پر منہ نہ ماریں‘ اور کہا ہے کہ امریکی صدر ’ملک کو تقسیم کرنے سے زیادہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‘

وائیٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پریس کانفرنس جسے انہوں نے نسلی حملوں کے لیے استعمال کیا کے چند گھنٹے بعد ہی خاتون ڈیموکریٹ ارکان الیگزینڈریا اوکازیو کورٹیز، الہان عمر، ایانا پریسلے اور راشدہ طلیب نے کانگریس میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکی صدر کے اففاظ زیادہ اہم معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے تھے۔ امریکی صدر کی تنقید کی زد میں آنے والی چاروں خواتین غیرسفید فام ہیں۔

گذشتہ سال امریکی ریاست میسا چوسٹس سے رکن کانگریس منتخب ہونے والی ایانا پریسلے نے کہا:’ امریکی صدر اس وقار، ہمدردی، شفقت اور خلوص کے مالک نہیں ہیں جو ان کے عہدے کا تقاضہ اور امریکی عوام کا حق ہے۔ ‘

انہوں نے کہا: ’میں امریکی عوام، اس ایوان اور اس کے باہر موجود سب لوگوں سے کہوں گی کہ وہ امریکی صدر کی طرف سے ڈالے گئے چارے کو منہ نہ لگائیں۔ ان کے فعل کا مقصد امریکی شہریوں کی فلاح وبہبود، دیکھ بھال اور حوالے سے نتائج کے مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔‘

الہان عمر، جن پر امریکی صدر نے یہودی مخالف اور القاعدہ کا حامی ہونے کا الزام لگایا ہے، نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام قوم پرستی کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا: ’پہلے یہ باتیں سوشل میڈیا چیٹ رومز اور قومی ٹیلی ویژن پر ہو رہی تھیں۔ اب یہ معاملہ وائیٹ ہاؤس کے باغ تک پہنچ گیا ہے۔ امریکی صدر کو اس سے زیادہ کوئی بات پسند نہیں کہ وہ ہمارے ملک کو نسل، مذہب، صنف، سیاسی رجحان یا ایمیگریشن سٹیٹس کی بنیاد پر تقسیم کردیں۔ ہمارے لیے اب وقت آگیا ہے کہ صدر کو اپنے آئین کا مذاق بنانے سے روکیں۔‘

چاروں خواتین نے یہ باتیں اس وقت کیں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس کی غیرسفید فام خواتین ارکان پر حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے اور  حال ہی میں انہیں’ اپنے ملک واپس جاؤ‘ کہہ چکے ہیں۔ ان چاروں میں سے تین امریکہ میں پیدا ہوئیں، جبکہ ایک، الہان عمر، 20 قبل صومالیہ سے پناہ گزین کے طور پر امریکہ آئیں۔

امریکہ میں صنعتی شعبے میں کامیابیوں کے حوالے سے تقریب سے خطاب میں صدر ڈونلڈ نے کہا:’ اگر ہمارے ملک سے نفرت کرتی ہیں اور وہ یہاں خوش نہیں ہیں تو وہ واپس جا سکتیں ہیں۔‘

 اس موقعے پر انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ  گذشتہ ہفتے اور پیر کی صبح ٹوئٹر پر جو پیغامات انہوں نے پوسٹ کیے وہ نسل پرستی پر مبنی تھے۔

ایک صحافی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے سوال کیا ہے کہ کیا ان اس بات پر تشویش ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان کے ٹویٹس کو بے تکا سمجھتے ہیں اور یہ کہ آیا ’سفید فام نسل پرست گروپوں کے اور آپ کے خیالات ایک جیسے ہیں۔‘

امریکی صدر نے جواب دیا کہ انہیں اس پر تشویش نہیں ہے کیونکہ بہت سے لوگ ان کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں۔ ’میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ اتنا ہے کہ جو لوگ امریکہ سے جانا چاہتے ہیں وہ جا سکتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے چلے جائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو چلے جائیں۔‘

ایسا لگتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے کے لیے جان بوجھ کر ایک مخصوص سیاسی حکمت عملی کو اپنی مہم کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے ان چار خاتون ارکان کانگریس کو ہدف بنانا شروع کر دیا ہے جنہیں ذرائع ابلاغ نے ’دا سکواڈ‘ کا نام دے رکھا ہے۔ یہ خواتین ترقی پسندی کے معاملات پر کھل کر بات کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ چاروں خواتین کا ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کے دیگر ارکان پر تنقید کے معاملے میں کانگریس سپیکر نینسی پیلوسی سے حال ہی میں جھگڑا بھی ہو چکا ہے۔

ریپبلکن پارٹی کے محض مٹھی بھر ارکان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان کی مذمت کی ہے۔ خاموش رہنے والے ارکان  اپنی  خاموشی سے ہی نمایاں  ہیں۔ سینیٹر لنزی گریم نے کانگریس کی ڈیموکریٹ ارکان کو ’سوشلسٹ‘ اور ’یہودی مخالف‘ قرار دیا تاہم ساتھ ہی انہوں نے امریکی صدر پر بھی زور دیا ہے وہ ایسے ذاتی حملے نہ کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدرڈونلڈ ٹرمپ نے وائیٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس میں اس سے پہلے کہے گئے جھوٹے دعووں کا بھی حوالہ دیا ۔انہوں نے تنقید میں کہا کہ الہان عمر ’صومالیہ سے تعلق رکھتی ہیں‘،’یہودیوں سے نفرت اور القاعدہ سے محبت کرتی ہیں۔‘

جس وقت امریکی کانگریس کی خاتون ارکان پریس کانفرنس کر رہی تھیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹوئٹرپر ان پر مسلسل حملے کر رہے تھے۔

پیر کو کانگریس میں ڈیموکریٹ ارکان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایوان کی خاتون ارکان پر حملوں کو باضابطہ طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

سپیکرنینسی پیلوسی نے کہا کہ: ’یہ ایوان صدر کو اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ اپنے امریکہ آنے والے تارکین وطن کو مختلف القابات سے نوازیں۔’ہمارے ر یپبلکن ارکان کو ڈونلڈ ٹرمپ کے غیرملکی تارکین وطن مخالف ٹوئٹر پیغامات کی مخالفت میں ہما را ساتھ دینا چاہییے۔‘

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیرملکی تارکین وطن کو پکڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر مارے گئے چھاپوں کو ’بے حد کامیاب‘ کہہ کر  ان کا بھی دفاع کیا ۔  تاحال ان چھاپوں کی بہت کم تفصیل عام کی گئی ہے اس لیے صدر کے بیان کی تصدیق مشکل ہے۔ امریکہ میں تارکین وطن اور ان کے حق میں مہم چلانے والے بڑی تعداد میں گرفتاریوں کے لیے  تیار ہیں لیکن اس ضمن میں ہفتے کے اختتام پر چند شہروں میں کی گئی صرف معمولی نوعیت کی کارروائیوں کی اطلاعات ہی منظرعام پر آئی ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ’تارکین وطن اور کسٹمز قوانین کے تحت مارے گئے چھاپے بے حد کامیاب رہے۔ لوگ غیر قانونی طورپر ہمارے ملک میں داخل ہوئے جن میں بہت سے امریکہ کے دشمن بھی تھے۔ بہت سے مختلف جرائم میں سزا یافتہ تھے۔ بہت سے تارکین وطن کو اتوار کو پکڑا گیا لیکن آپ کو اس کا علم نہیں ہے۔ یہ بہت کامیاب دن تھا لیکن آپ کو اس کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ جس تارک وطن کو پکڑا گیا اس کے پاس دستاویزات موجود تھیں اور ہمارے پاس عدالت کا حکم تھا۔‘

تاہم امریکی صدر نے تارکین وطن کو پکڑنے کے لیے مارے گئے چھاپوں کے حوالے سے میڈیاکے سامنے کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔البتہ نیویارک کے میئر بل ڈی بلاسیو نے کہا ہے کہ ہفتے کو شہر میں تین چھاپے مارے گئے۔ ڈینور اور میامی میں بھی چھاپوں کی غیرمصدقہ اطلاعات ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین