کوئٹہ میں اساتذہ کا دھرنا، شہری مشکلات کا شکار

بلوچستان ایجوکیشن ایمپلائز ایکشن کمیٹی نے اپنے 15 مطالبات کے حق میں کوئٹہ کے ایدھی چوک پر دھرنا دے رکھا ہے۔

بلوچستان ایجوکیشن ایمپلائز ایکشن کمیٹی نے ہاؤس ریکوزیشن، لازمی تعلیمی ایکٹ اور دیگر مطالبات کے حق میں کوئٹہ کے ایدھی چوک پر دو روز سے دھرنا دے رکھا ہے ( انڈپینڈنٹ اردو)

کوئٹہ کی سول اسپتال کالونی میں رہائش پذیر محمد ناصر کے معمولاتِ زندگی دو روز سے بری طرح متاثر ہوگئے ہیں۔ وہ نہ صرف دفتر دیر سے پہنچ رہے  ہیں بلکہ ان کے بچوں کو بھی سکول تاخیر سے آنے پر ڈانٹ پڑ رہی ہے۔

محمد ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم ذہنی مریض بن گئے ہیں، اب گھر سے نکلنا بھی محال ہوگیا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی ہمیں گاڑیوں کے پریشر ہارن اور شور شرابے کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجہ اساتذہ کا دھرنا ہے۔‘

محمد ناصر کے مطابق مرکزی چوک کی بندش سے نہ صرف ہمیں مشکلات کا سامنا ہے بلکہ سول اسپتال جانے والے مریض، پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر لوگ بھی شدید متاثر ہیں۔

محمد ناصر کی طرح محمد عثمان بھی اسی راستے سے روزانہ گزر کر سرکاری دفتر جاتے ہیں اور دو دن سے مرکزی شاہراہ کی بندش کی وجہ سے وہ بھی نالاں ہیں۔

محمد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایدھی چوک پر دھرنے سے ہمارا روزمرہ کا معمول خراب ہوگیا ہے اور دفتر آتے ہوئے ٹریفک جام کی وجہ سے گھنٹوں لیٹ ہونا معمول بن گیا ہے۔ 

محمد عثمان کے مطابق چونکہ کوئٹہ میں پہلے سے ٹریفک جام کا مسئلہ سر درد سے کم نہیں، اب اس احتجاج نے شہریوں کو ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے پر مجبور کردیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ٹریفک جام اور شور شرابے کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان ایجوکیشن ایمپلائز ایکشن کمیٹی نے ہاؤس ریکوزیشن، لازمی تعلیمی ایکٹ اور دیگر مطالبات کے حق میں کوئٹہ کے ایدھی چوک پر دو روز سے دھرنا دے رکھا ہے۔  

دھرنا دینے والوں میں ایک خاتون استاد اختر مندوخیل بھی ہیں، جو دیگر اساتذہ کے ہمراہ گزشتہ دو ماہ سے اپنے حقوق کے لیے جد وجہد کررہی ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اختر مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حکومت کی جانب سے ان کے مطالبات تسلیم نہ ہونے پر آج اساتذہ دھرنا دینے پر مجبور ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم بھی ریاست کے معزز شہری ہیں اور اساتذہ ہی بچوں کو تعلیم دے کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن حکومت ہمارے 15 مطالبات تسلیم نہیں کر رہی، جس کے باعث ہم اس شدید گرمی میں دھرنا د ے رہے ہیں۔‘

ایدھی چوک شہر کا مرکزی علاقہ ہے، جس کے قریب وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ، سول سیکرٹریٹ، گورنر ہاؤس اور ریلوے اسٹیشن واقع ہے۔ یہیں سے شہر کی تمام ٹرانسپورٹ گزرتی ہے جبکہ سول اسپتال جانے کا راستہ بھی یہی ہے۔

دھرنے کی کال بلوچستان ایجوکیشن ایکشن کمیٹی نے دی جس نے 15 مطالبات حکومت کے سامنے رکھے تھے۔ ان مطالبات میں حکومت سے لازمی تعلیمی ایکٹ کے خاتمے، پروموشن کوٹہ، ہاؤس ریکوزیشن، ہائر ایجوکیشن الاؤنس، ہیلتھ انشورنس کارڈ، کالج اور اسکولوں کی اَپ گریڈیشن، کنوینس الاؤنس کی کٹوتی، تعلیمی اداروں میں مداخلت کے خاتمے، سینیئر پوسٹوں پر جونیئرز کی تعیناتی روکنے سمیت 15 مطالبات پر عمل کرنے کے مطالبے شامل ہیں۔

دھرنے کے مرکزی رہنما آغا زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’اگر حکومت پہلے ہی ہمارے مطالبات تسلیم کرتی تو ہم یہاں دھوپ میں احتجاج کرنے کے بجائے تعلیمی اداروں میں بچوں کو تعلیم دیتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ سارے مطالبات حکومت نے منظور کیے، ان کی سمری بھی بن چکی ہے اس کے باوجود ہمیں یہ مراعات نہیں دی جا رہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس دھرنے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے مگرہم دھرنا دینے پر مجبور ہیں۔‘

آغا زاہد حسین کے مطابق: ’ہم مطالبات کی منظوری تک اس چوک سے نہیں جائیں گے اور اگلے مرحلے میں سکول اور کالجوں کو بند کرکے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی کال بھی دے سکتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی نے اس سے قبل کوئٹہ  پریس کلب کے قریب ایک مہینے تک احتجاجی کیمپ بھی لگایا تھا۔ 

دوسری جانب حکومت کا موقف ہے کہ دھرنا دینے والے اساتذہ اور حکومت کے درمیان کئی بار مذاکرت ہوئے ہیں اور حکومت اساتذہ کے مطالبات پر مرحلہ وارعملدرآمد کررہی ہے۔  

اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیرِ تعلیم محمد خان لہڑی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ اساتذہ سڑکوں پر نہ آئیں، ہم انہیں بہتر مراعات اور سہولتیں دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ 

گو حکومت کا موقف ہے کہ دھرنا دینے والے اساتذہ کے مطالبات تسلیم کیے جارہے ہیں تاہم اساتذہ کا کہنا ہے کہ ’یہاں کوئی بھی مسئلہ دھرنا اور احتجاج کے بغیر حل نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ  ہم یہاں بیٹھے ہیں۔‘

دوسری جانب حکومت نے شہر میں دفعہ 144 نافذ کرکے جلسے جلوسوں، دھرنوں اور پانچ یا پانچ سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کردی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان