وادی نیلم میں سیلاب کی تباہ کاری: عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

امدادی ٹیمیں علاقے میں پہنچ چکی ہیں۔ لاشوں کی تلاش کا کام جاری ہے تاہم کامیابی کا امکان کم ہے۔ سڑکیں تباہ، بجلی و ٹیلی فون کا نظام معطل اور پینے کے پانی کی قلت لوگوں کی مشکلات بڑھا رہی ہے۔ سیلاب سے تباہ حال لیسوا کا آنکھوں دیکھا حال

اتوار اور پیر کی درمیانی شب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وادی نیلم کے علاقے لیسوا میں آسمانی بجلی گرنے سے آنے والے سیلاب میں لاپتہ ہونے والے 21 افراد کو اب حکام نے مردہ قرار دیا ہے۔ اگر چہ لاشوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع ہو چکا ہے تاہم ملبے اور پتھروں سے کسی لاش کا ملنا لگ بھگ ناممکن ہے۔

 سیلاب آنے کے تقریباً 12 گھنٹے بعد پیر کی صبح میں اس علاقے میں پہنچا۔ چند ماہ قبل تیار ہونے والی لیسوا بائی پاس روڈ کا تقریباً سات کلومیٹر حصہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور اب محض کہیں کہیں سڑک کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ بند سڑکوں کو کھولنے کے لیے ایک بلڈوزر مشین پہنچ چکی ہے تاہم تباہی اس قدر شدید ہے کہ سڑک دوبارہ کھولنے کے لیے ایک مشین ناکافی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ارد گرد کے گاؤں سے سینکڑوں افراد متاثر علاقوں تک پہنچنے کے لیے پیدل چل رہے ہیں۔ ان میں خواتین اور کم عمر بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ متاثرہ علاقوں سے واپس آنے والے ہر شخص کے پاس ایک الگ کہانی ہے۔ پولیس اہلکاروں کی ایک ٹولی میرے ساتھ ساتھ سفر کر رہی ہے اور ایک بھاری بھر کم افسر کو کچھ اہلکار سہارا دے کر چلنے میں مدد دے رہے ہیں۔ اِکا دُکا امدادی کارکن بھی پہنچ رہے ہیں۔ کسی کے پاس بیلچہ ہے اور کسی کے پاس کدال۔

لیسوا زیرو پوائنٹ سے بٹ کھڑاک محلہ تک لگ بھگ دو کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنے میں مجھے گھنٹے بھر کا وقت لگا حالانکہ عام حالات میں یہ فاصلہ محض دس سے 15 منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔ بٹ کھڑاک سیلاب سے متاثرہ علاقے لیسواہ کا پہلا محلہ ہے جہاں تباہی کے آثار نمایاں ہیں۔ گارے، کیچڑ اور پتھروں کے درمیان تین چار مکانوں کے ڈھانچے دکھائی دے رہے ہیں۔

شیخ نصیر نامی مقامی پولیس اہلکار نے بتایا کہ کل رات تک اس محلے میں دس، بارہ گھر تھے۔ اب صرف تین چار ڈھانچے باقی رہے گئے ہیں۔ شیخ نصیر کا چھوٹا بھائی شیخ ظہور بھی سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے۔ شیخ نصیر کے بقول ’بھائی نے ضعیف العمر والد اور اپنے بچوں کو محفوظ جگہ پر منتقل کیا اور واپس جا کر اندر موجود مویشیوں کی رسیاں کھولنے لگا تاکہ وہ بھی بھاگ سکیں۔ مگر اسی دوران مکان گر گیا۔‘

جہاں مکان تھے، اب ملبہ بھی نہیں

 دو روز قبل تک اس وادی میں سرسبز درختوں اور فصلوں کی بہار تھی، تاہم اب ہر طرف تباہی اور بربادی کا منظر ہے۔ جہاں کبھی ہنستے بستے گھر ہوا کرتے تھے وہاں آج ملبے کے ڈھیر ہیں۔ جو کچھ سامنے آیا، طوفانی ریلا ساتھ بہا لے گیا۔

نالے کے ارد گرد بنے گھروں میں سے بیشتر گھر سیلاب میں بہہ گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی کل تعداد 21 ہے جبکہ تقریباً 120 مکان، 60 دکانیں اور تین مساجد کے علاوہ درجنوں گاڑیاں بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئی ہیں۔ نالے میں کہیں کہیں مکانوں کا ملبہ دکھائی دے رہا ہے۔

گاؤں لوئر بیلا کے رہائشی 62 سالہ شیخ طارق نے بتایا کہ ’مغرب کی نماز ادا کرکے جب میں واپس لوٹا تو اچانک تیز بارش شروع ہوئی اور نالے میں پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوگئی۔ نالے کے قریب مسجد میں تبلیغی جماعت کے کچھ لوگ تھے جنہیں ہم نے کچھ دور نسبتاً ایک محفوظ گھر میں منتقل کیا۔ اچانک بڑا سیلابی ریلا آیا اور اس گھر کے مالک سمیت کسی کو بھی نکلنے کا موقع نہیں ملا۔ تبلیغی جماعت کے دس کارکنوں میں سے ایک کا تعلق شیخوپورہ اور چار کا تعلق لاہور سے تھا جبکہ پانچ افراد فیصل آباد کے رہائشی تھے۔‘

شیخ طارق جو خود بھی سیلابی ریلے میں زخمی ہوئے، اپنے بچوں کے ساتھ سیلابی ریلے میں پھنسے رہے۔ انہوں نے بتایا: ’باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں بچوں کو لے کر بالائی منزل پر چلا گیا اور اذان دینے لگا۔ میرے بچے بھی اللہ کو پکار رہے تھے۔ جب بھی کوئی درخت یا بڑا پتھر مکان کے ساتھ ٹکراتا، ہم سمجھتے کہ مکان اب گرا۔ پوری رات مکان لرزتا رہا اور ہم دعائیں مانگتے رہے۔'

 ’خوفناک آوازوں سے کانوں کے پردے پھٹ رہے تھے‘

گیارہویں جماعت کی طالبہ صائمہ نے بتایا کہ سیلاب کے دوران اتنی خوفناک آوازیں آ رہی تھیں کہ کانوں کے پردے پھٹ رہے تھے۔ ’یوں لگ رہا تھا کہ کہیں بارود کے ڈھیر میں آگ لگ گئی ہے۔ دھماکوں سے زمین اور مکان لزر رہے تھے۔ ہمارا گھر نالے سے دور تھا مگر یوں لگ رہا تھا کہ دھماکوں سے گر رہا تھا۔ میں نے اس قدر خوفناک آوازیں کبھی نہیں سنیں۔‘

 شمائلہ نامی ایک اور طالبہ نے بتایا کہ ’جب سیلاب آیا تو ہم نے نالے کے پار اپنے رشتہ داروں کو آوازیں دینا شروع کیں کہ بھاگ جاؤ۔ پہلے ان کی آوازیں آ رہی تھیں، پھر کبھی کبھی نالے کی دوسری طرف چیخ و پکار سنائی دیتی۔ رفتہ رفتہ شور اتنا بڑھ گیا کہ ہم اپنے سے چند قدم دور کھڑے لوگوں کی آواز بھی نہیں سن سکتے تھے۔‘

’کاش میں گھر پر ہوتا‘

55 سالہ شاہنواز بٹ کا گھر بھی سیلاب میں بہہ گیا۔ گھر میں موجود ان کی اہلیہ اور تین بیٹیاں بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہیں۔ خود شاہنواز بٹ اُس رات مظفر آباد میں تھے۔ وہ کہتے ہیں: ’میں اور میرے دو بیٹے اس لیے بچ گئے کہ ہم گھر پر موجود نہیں تھے۔ کاش! میں خود گھر پر ہوتا تو ان کو بچالیتا یا پھر خود بھی ساتھ ڈوب مرتا۔‘

35 سالہ وحید بٹ بتاتے ہیں کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ سیلاب اس قدر تباہ کن ہو گا۔ ’پہلے بھی اس نالے میں سیلاب آتے رہے ہیں۔ ہم مطمئن تھے کہ ہمارے گھر محفوظ جگہوں پر ہیں، مگر پھر اچانک سے لکڑی کے ٹکڑوں، درختوں اور پتھروں کا ایک ریلا آیا۔ ہمارے مکان کا ایک حصہ گر گیا۔ ہم باہر کی طرف بھاگے۔ میں نے اپنی ماں کو کندھے پر اٹھایا ہوا تھا۔ اتنے میں میری سات سالہ چچا زاد بہن نے آواز دی کہ بھائی مجھے بچائیں۔ میں ماں کو چھوڑ کر اس کی طرف بھاگا مگر اتنی دیر میں سیلابی ریلا گھر کی دوسری جانب تک پھیل چکا تھا۔ میری ماں، ایک چچی اور تین چچا زاد بہنوں سمیت کوئی نہیں بچ سکا۔ میں نے بمشکل جان بچائی۔‘

گاڑیوں میں بھی ہلاکتیں ہوئی

لیسوا ہی کے رہائشی بشارت میر کے بقول جس وقت سیلاب آیا اس وقت نالے میں کم از کم نصف درجن گاڑیاں موجود تھیں۔ ’میں سیلاب سے چند منٹ پہلے گاؤں سے نکل کر آٹھمقام کی طرف گیا۔ زیرو پوائنٹ تک جاتے جاتے چھ سے زائد گاڑیاں ملیں جن میں سے ہر ایک میں کم از کم دو یا تین افراد موجود تھے۔ ظاہر ہے جس وقت سیلاب آیا وہ گاڑیاں نالے میں ہی موجود تھیں۔ تاہم ان کا کوئی پتہ نہیں کہ وی کہاں گئیں۔‘

حکام کو بھی ان گاڑیوں کے سیلاب میں بہہ جانے کا خدشہ ہے، تاہم تاحال تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ لوگ کون تھے اور کہاں جا رہے تھے۔ پولیس کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 15 گاڑیاں سیلاب کی نذر ہوئیں تاہم ان میں کسی فرد کی موجودگی کے بارے میں تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں

گاؤں بیلا بالا میں سڑک کنارے کچھ نوجوان پیدل چلنے والوں کو پانی پلا رہے ہیں۔ پسینے میں شرابور مسافر پانی کے چند گھونٹ پی کر اپنی منزل کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ خواتین دور کسی چشمے سے پانی بھر بھر کر لا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک نگہت بی بی نے بتایا کہ سیلاب میں پانی کی ساری لائنیں ٹوٹ گئی ہیں۔ گھروں میں بھی پانی کی ضرورت ہے اور باہر سے آنے والے بھی پانی مانگ رہے ہیں۔ کہیں کہیں اِکا دُکا چشمے ہیں، جہاں لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر پانی بھرتے ہیں۔

ایسا سیلاب تو1960 میں بھی نہیں آیا

دومیلاں گاؤں میں میری ملاقات عبد الشکور، تاج دین اور علی گوہر نام کے تین بزرگوں سے ہوئی جن کی عمریں 70 سے 80 سال کے درمیان ہیں اور انہوں نے اپنی زندگیوں کا بیشتر حصہ اسی علاقے میں گزارا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے اس سے قبل بھی کئی سیلاب دیکھے ہیں مگر اتنی تباہی کبھی نہیں ہوئی۔ 1960 کا سیلاب سب سے بڑا تھا۔ 1992 میں بھی سیلاب آیا، 2010 اور 2014 میں بھی سیلاب آتے رہے۔ مکان تباہ ہوئے۔ اِکا دُکا ہلاکتیں بھی ہوئی۔ مگر اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانیں پہلی مرتبہ ضائع ہوئیں۔‘

سیلاب کی وجہ جنگل کا کٹاؤ ہے

شاہنواز بٹ جن کی اہلیہ اور تین بیٹیاں سیلاب میں بہہ گئیں، بتاتے ہیں کہ سیلاب سے اس قدر تباہی کی اصل وجہ جنگلات کا کٹاؤ ہے۔ 'میں خود بھی محکمہ جنگلات سے منسلک رہا ہوں۔ علاقے کے عقب میں پہاڑی پر جنگل کو کئی سال پہلے کاٹا گیا تھا۔ تقریباً 10 ہزار مکعب فٹ لکڑی جگہ جگہ جنگل میں پڑی تھی۔ سیلابی ریلا اس لکڑی کو اپنے ساتھ بہا لایا، جس نے گاؤں میں تباہی پھیلائی۔ اگر لکڑی کی گیلیاں نہ ہوتی تو شاید تباہی اتنی شدید نہ ہوتی۔‘

شاہنواز بٹ کے دعوے کی تصدیق لکڑی کی ان سینکڑوں گیلیوں سے بھی ہوتی ہے جو سیلاب کے بعد یہاں سے لگ بھگ 15 کلومیٹر دور نویسری کے مقام پر نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے ڈیم میں جمع ہیں۔

یہ سیلاب نہیں خدا کا عذاب تھا

تاہم 70 سالہ عبدالرشید کی رائے شاہنواز بٹ سے مختلف ہے۔ تبلیغی جماعت سے منسلک عبدالرشید کو یقین ہے کہ یہ سیلاب نہیں خدا کا عذاب تھا۔ ’لوگوں نے زمین کو گندہ کر دیا تھا۔ نالے میں ہر جگہ گندی پھیلی ہوئی تھی۔ خواتین بچوں کے استعمال شدہ ڈائپر نالے میں پھنکتی تھیں۔ لوگوں نے اپنے گٹر نالے میں بنا رکھے تھے۔ سیوریج لائنیں نالے میں پھینکی ہوئی تھی۔ پانی اللہ کی نعمت ہے۔ اگر آپ پانی کو ناپاک کریں گے تو قدرت آپ سے انتقام تو لے گی۔‘

پتہ نہیں لاشیں ملیں نہ ملیں، فاتحہ تو پڑھ لیں

تقریباً سات کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرنے کے بعد جب میری واپسی ہوئی تو دن ڈھل رہا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔ شاہنواز بٹ سمیت ان تمام لوگوں کے پاس مہمانوں کا تانتا بندھا تھا جن کے پیارے گزشتہ رات سیلاب کی نذر ہو گئے تھے۔ آنے والے مہمان ان خاندانوں کو حوصلہ دے رہے تھے۔ کچھ لوگ فاتحہ خوانی کر رہے تھے۔

محب الرحمان نامی نوجوان سے جب میں نے پوچھا کہ کیا لاشیں تلاش کرنے کے لیے بھی کچھ کیا جا رہا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ ’ان پتھروں میں کسی لاش کا سلامت بچنا ممکن نہیں۔ لاشیں پتہ نہیں ملیں یا نہ ملیں، چلیں فاتحہ تو پڑھ لیتے ہیں۔‘ ایک اور گھر میں موجود ایک بزرگ نے بتایا کہ ’اگلے دو چار دن تک اگر کوئی لاش نہ ملی تو پھر سب کی اجتماعی غائبانہ نماز جنازہ ہی پڑھنا ہو گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان