’جاگ اٹھا ہے سارا وطن، ساتھیو، مجاہدو‘: شاعر کا انتقال

15 جولائی کو نامور شاعر اور ماہرِ تعلیم حمایت علی شاعر کینیڈا میں انتقال کرگئے۔

حمایت علی شاعر خوش گلو تھے اور اپنی خوبصورت آواز، شاعری اور انداز بیان کے ذریعے مشاعرے لوٹ لیتے تھے (بشکریہ سوشل میڈیا)

جب کوئی ہمارے درمیان موجود ہوتا ہے اور جب تک کوئی ہمارے درمیان سانس لے رہا ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی ڈور ابھی سلامت ہوتی ہے اُس وقت تک ہمیں اس کی خوبیوں کا علم ہی نہیں ہوتا۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کتنا بڑا انسان اور کتنا بڑا لکھاری ہمارے عہد میں موجود ہے اور ابھی ہمارے ساتھ سانس لے رہا ہے۔

پھر جب وہ رخصت ہوجاتا ہے تو ہم اس کی زندگی کا احوال معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لکھے ہوئے گیتوں کو تلاش کرتے ہیں۔ اس کی کتابوں کو کسی کونے کھدرے سے نکال کر اُن پر سے گرد صاف کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اپنی کوئی پرانی تصویر تلاش کرکے سوشل میڈیا پر لگاتے ہیں اور پھر دنیا کو بتاتے ہیں کہ ایک بڑا اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

ایسا ہم نے بہت سے لوگوں کے ساتھ کیا۔ سردست دو مثالیں ہی کافی ہیں۔ ایک ڈاکٹر انور سجاد اور دوسری لیاقت علی عاصم کی۔ ان دونوں نے بھی شعر و ادب اور فنون لطیفہ کی بھرپور خدمت کی۔ لیکن ہم نے ان کے زندگیوں میں ان کی خبر گیری کی کوشش نہیں کی۔ ڈاکٹر انور سجاد کی اگر امداد بھی کی گئی تو پھر ایک ویڈیو بنوا کر وائرل کرنا بھی ضروری سمجھا گیا، جس میں یہ انا پرست لکھاری اور اپنے زمانے کا خوبصورت اور باصلاحیت فنکار حکمرانوں کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ انہوں نے بیت المال سے ’خطیر‘ رقم اسے عطا کردی ۔ ایسی ہی صورت حال اُس وقت دیکھنے میں آئی جب 15 جولائی کو نامور شاعر اور ماہرِ تعلیم حمایت علی شاعر کینیڈا میں انتقال کرگئے۔

یہ 1981 کا سال تھا۔ سول لائنز کالج ملتان کے ایک مشاعرے میں مجھے نظم اور شاکر حسین شاکر کو غزل پر پہلے انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ نامور نقاد جابر علی سید، ہائیکو کے بانی پروفیسر محمد امین اور پروفیسر حسین سحر منصفین میں شامل تھے۔ مشاعرے کے بعد ہمیں انعام میں جو کتاب دی گئی، اس کا نام ’مٹی کا قرض‘ تھا اور مٹی کا یہ قرض حمایت علی شاعر نے چکایا تھا۔

یہ حمایت صاحب کا شعری مجموعہ تھا اور اسی کتاب کے ذریعے ہم پہلی بار حمایت صاحب سے متعارف ہوئے۔ یہ کتاب اگرچہ اب بہت خستہ ہو چکی ہے لیکن ہم نے آج بھی اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ حمایت علی شاعر کا اس کتاب کے ذریعے ہمارے ساتھ ابتدائی تعارف ہوا اور پھر آنے والے برسوں میں اقبال ارشد اور حسین سحر نے حمایت صاحب کی رفاقت میں گزرے بہت سے لمحات اور ان کے حوالے سے کئی واقعات ہمیں اس تواتر سے سنائے کہ ہمیں حمایت صاحب سے ملے بغیر ہی محبت ہوگئی۔ ایک اپنائیت کا احساس ہوتا تھا حمایت صاحب کا نام سن کر اور اس لیے ہوتا تھا کہ ہمارے یہ بزرگ انہیں اپنا سمجھتے تھے۔

حمایت صاحب سے محبت کا ایک اور حوالہ ہائیکو نے عطا کیا۔ جب 80ء کے عشرے میں ڈاکٹر محمد امین نے یہ جاپانی صنف سخن پاکستان میں متعارف کروائی تو یہ سوال ابھر کر سامنے آیا کہ تین مصرعوں کی نظم ثالثی کا تجربہ تو حمایت علی شاعر پہلے ہی کرچکے ہیں۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی شاعر یا ادیب نے کسی صنف کا پہلے سے تجربہ کیا ہو اور اس سے ملتی جلتی صنف بعد ازاں متعارف کرائی جائے تو وہ شاعر یا لکھاری بہت شور مچاتا ہے۔ لیکن حمایت علی شاعر کی جانب سے ایسا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

حمایت علی شاعر کے ساتھ محبت کا ایک اور حوالہ ان کے صاحبزادے اوج کمال کے ساتھ ہماری دوستی کی صورت میں مستحکم ہوا۔ ان کی وفات سے ایک روز قبل 14 جولائی کو ہی اوج کمال کے ذریعے ان کی سالگرہ کی خبر ملی۔ حمایت صاحب کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں طویل عرصہ سے صاحب فراش تھے۔ اس مرتبہ انہیں ان کی سالگرہ کی خبر بھی ہوئی یا نہیں اس بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں کہ طویل عرصہ سے وہ یادداشت بھی کھوچکے تھے اور کسی کو پہچانتے بھی نہیں تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حمایت علی شاعر 14 جولائی 1926 کو بھارت کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آ گئے۔ انہوں نے نامساعد حالات میں عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مسائل کا مردانہ وارمقابلہ کیا اور پھر قدم قدم آگے بڑھتے چلے گئے۔ پہلے انہوں نے ریڈیو پاکستان کراچی میں ملازمت اختیار کی اور پھر 1955 میں جب حیدر آباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا تو حمایت صاحب اس سے منسلک ہوگئے اور کراچی سے حیدرآباد آگئے۔

حیدرآباد میں قیام کے دوران سندھ یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور پھر اسی یونیورسٹی میں تدریس شروع کردی۔ حیدرآباد میں قیام کے دوران انہوں نے بھرپور ادبی زندگی گزاری ۔ 1959، 1960 اور1961 میں حیدرآباد میں جو مشاعرے منعقد ہوئے ان میں برصغیر پاک وہند کے نامور شعراء نے شرکت کی۔ حمایت علی شاعرنے ہر مشاعرے کی روداد کتابی صورت میں محفوظ کردی جو حال ہی میں اردو لغت بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری نے ازسر نو تدوین کی اور اسے ورثہ نے خوبصورت گیٹ اَپ کے ساتھ ایک ہی جلد میں شائع کردیا ہے۔

حمایت علی شاعر خوش گلو تھے اور اپنی خوبصورت آواز، شاعری اور اندازِ بیان کے ذریعے مشاعرے لوٹ لیتے تھے۔ ان کے بے شمار اشعار زبان زد عام ہوئے، لیکن ان کی شہرت میں بنیادی کردار ان جنگی ترانوں نے ادا کیا جو انہوں نے جنگ ستمبر کے موقع پر تحریر کیے اور ایک محب وطن پاکستانی شاعر ہونے کے ناطے لوگوں میں جوش وخروش پیدا کیا۔ یہ ترانے آج بھی اسی طرح مقبول ہیں جیسے پہلے روز تھے۔ ’ساتھیو، مجاہدو، جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘ وہ ترانہ ہے جو جنگ کے پہلے روز ہی زبان زدعام ہوگیا۔  اسی طرح ’اے دشمنِ دیں تونے کس قوم کو للکارا‘ بھی ان کے مقبول ترین جنگی نغموں میں سے ایک ہے۔  

حمایت علی شاعر بہت سے سدا بہار فلمی گیتوں کے بھی خالق تھے۔ 1962 میں آنچل وہ پہلی فلم تھی جس کے تمام نغمات حمایت علی شاعر نے لکھے اور موسیقار خلیل احمد نے ان کی خوبصورت دھنیں بنائیں۔ حمایت علی شاعر نے مجموعی طورپر 32 فلموں کے لیے 130 نغمات لکھے۔ 1965 میں انہوں نے فلم تصویر کا منظرنامہ اور مکالمے تحریر کیے۔ 1966 میں بحیثیت فلم ساز اپنی پہلی فلم لوری بنائی۔ 1973 میں بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار فلم گڑیا مکمل کی۔ انہیں بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔

ان کی کتاب ’آگ اور پھول‘ صدارتی ایوارڈ کی حقدار ٹھہری۔ مٹی کا قرض کو آدم جی ایوارڈ ملا۔  اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ان کی کتاب ’ہارون کی آواز‘ کو ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ 1962 اور 1963 میں بہترین نغمہ نگار کی حیثیت سے نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ 1988 میں ان کے ٹی وی پروگرام ’عقیدت کا سفر‘ کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی جانب سے اعلیٰ کارکردگی کا ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ بے شمار ملکی و غیرملکی اعزازات ان کے حصے میں آئے۔ ان کے مقبول ترین فلمی گیتوں میں ’تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم‘، ’کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو‘، ’نہ چھڑا سکو گے دامن نہ نظر بچا سکو گے‘، ’ہم نے تو تمہیں دل دے ہی دیا‘ اور ’میں نے تو پریت نبھائی تھی سانوریا نکلا تو ہرجائی‘ قابل ذکر ہیں۔

انہوں نے المیہ گیت بھی لکھے اور طربیہ بھی۔ لوریاں بھی لکھیں اور قوالیاں بھی۔ انہیں شاعری پر مکمل عبور حاصل تھا۔ حمایت علی شاعر کے شعری مجموعوں میں آگ میں پھول، مٹی کا قرض، تشنگی کا سفر اور ہارون کی آواز شامل ہیں۔ ان کی نعتیہ شاعری کا انتخاب ’حرف حرف روشنی‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ شیخ ایاز کے فن اور شخصیت پر ان کی کتاب ’شخص وعکس‘ کے نام سے تنقیدی مقالات اور ’بنگال سے کوریا تک‘ طویل افسانوی نظم بھی ان کی مطبوعات میں شامل ہیں۔

آخر میں حمایت علی شاعر کے وہ اشعار جو زبان زدعام ہیں:

میں کچھ نہ کہوں اور یہ چاہوں کہ میری بات
خوشبو کی طرح اڑ کے ترے دل میں اتر جائے

سایہ ہے کہ خورشید کہ دل کی ہے سیاہی
محرم ہو تو یہ راز بتا کیوں نہیں دیتے

الزام اپنی موت کا موسم پہ کیوں دھروں
میرے بدن میں میرے لہو کا فساد تھا

دل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا زیاں
عشق کوعشق سمجھ مشغلہ دل نہ بنا

میں تو سمجھ رہا تھا کہ مجھ پر ہے مہرباں 
دیوار کی یہ چھاﺅں تو سورج کے ساتھ تھی

تمام گبند ومینار و منبر و محراب 
فقیہہ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے

زیادہ پڑھی جانے والی ادب