ایران: قید خاتون ’دماغی امراض کے وارڈ منتقل‘

40 سالہ ایرانی نژاد برطانوی خاتون نازنین زاغری ریٹکلف کو ان کی کمسن بیٹی کے ساتھ  اپریل 2016 میں تہران کے امام خمینی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد انہیں جاسوسی کے الزام میں پانچ برس قید کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔

  نازنین زاغری ریٹکلف کو ان کی کمسن بیٹی کے ساتھ  اپریل 2016 میں تہران کے امام خمینی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا (اے ایف پی)

ایران میں قید ایرانی نژاد برطانوی شہری نازنین زاغری ریٹکلف کے شوہر رچرڈ ریٹکلف کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ کو جیل سے ذہنی امراض کے ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

رچرڈ ریٹکلف کے مطابق نازنین زاغری کو اس ہفتے کے شروع میں ایون جیل سے تہران کے امام خمینی ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ ایرانی پاسداران انقلاب کی تحویل میں ہیں۔

40 سالہ نازنین زاغری ریٹکلف کو ان کی کمسن بیٹی کے ساتھ  اپریل 2016 میں تہران کے امام خمینی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد انہیں جاسوسی کے الزام میں پانچ برس قید کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ نازنین زاغری جاسوسی کے اس الزام کی سختی سے تردید کرتی ہیں۔

نازنین زاغری کے والد نے کہا ہے کہ وہ منگل کو ہسپتال گئے لیکن انہیں اپنی بیٹی سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ ان کی بیٹی کو بھی خاندان کے لوگوں سے رابطے کی اجازت نہیں ہے۔

ہسپتال منتقلی سے پہلے نازنین زاغری نے رشتہ داروں کو بتایا: ’جب میں والدین سے ملنے ایران آئی تو صحت مند اور خوش تھی۔ تین سال سے کچھ زیادہ عرصے کے بعد اب مجھے دماغی صحت کے کلینک میں داخل کروایا جا رہا ہے۔ آپ میری جانب دیکھیے، میں پاگل خانے میں پہنچ چکی ہوں۔ یہ شرم کی بات ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’جیل میں رہنا میرے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے سیاسی کھیل کا محور بننے سے نفرت ہے۔ میں اس سے نفرت کرتی ہوں۔‘

نازنین زاغری کی رہائی کے لیے مہم چلانے والوں نے کہا ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ نازنین زاغری کا علاج کیا جا رہا ہے یا وہ کتنے عرصے تک ہسپتال میں رہیں گی؟

گذشتہ ماہ نازنین زاغری نے اپنی قید کے خلاف 15 دن کے لیے بھوک ہڑتال کی تھی جس کے بعد انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

نازنین زاغری کے خاوند رچرڈ ریٹکلف نے بھی اہلیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے 15 دن تک کچھ نہیں کھایا پیا تھا۔ تب انہوں نے لندن میں ایرانی سفارتخانے کے باہر فٹ پاتھ پر کیمپ لگا رکھا تھا۔

جوڑے کی پانچ سالہ بیٹی والدہ کی گرفتاری کے بعد سے ایران میں اپنے نانا نانی کے ساتھ مقیم ہیں۔

رچرڈ ریٹکلف نے کہا: ’نازنین کو امید تھی کہ ان کی بھوک ہڑتال سے ایرانی حکام کے رویے میں نرمی آئے گی اور واضح طور پر آئی بھی ہے۔ امید ہے کہ ہسپتال منتقلی کے بعد انہیں علاج کی سہولت ملے گی اور ان کی نگہداشت کی جائے گی۔ اس کے باوجود انہیں بھروسہ نہیں ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے ان پر کیا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ جب ہمیں پتہ نہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے تو صورت حال بڑی پریشان کن ہو جاتی ہے۔‘

رچرڈ ریٹکلف نے مزید کہا: ’انہیں خوشی ہے کہ نازنین کے والد صورت حال پر نظر رکھنے کے لیے ہسپتال کے باہر موجود ہیں۔ بہترین وقتوں میں بھی دماغی امراض کے ہسپتال کی اپنی پریشانیاں ہوتی ہیں، لیکن خاص طور پر جب کسی کو الگ تھلگ اور پاسداران انقلاب کی تحویل میں رکھا جائے۔ اس وقت بھی ایسا لگ رہا ہے کہ ایرانی حکام نازنین کی ہسپتال موجودگی کے معاملے میں بھی طاقت اور ہر شے پر قابو پانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’ہمیں پھر بھی امید ہے کہ یہ انجام کا آغاز ہے۔ گذشتہ موسم گرما میں بھی ہم یہاں تھے۔ جب بھی نئے وزیراعظم کا فیصلہ ہوگا ہم معاملہ ان کے ساتھ اٹھائیں گے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ نازنین کے معاملے میں وہ ذاتی طور پر ذمہ داری لیں۔ ‘

ایران میں نازنین زاغری اور لندن میں اپنی ہڑتال کے خاتمے پر رچرڈ ریٹکلف نے کہا کہ ’وہ سمجھتے ہیں کہ اپنی اہلیہ کا معاملہ اٹھانے کے لیے احتجاج کامیاب رہا ہے۔ 100 سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ نے ذاتی طور پر ان کے پاس آکر اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ ان ارکان پارلیمنٹ میں لیبرپارٹی کے رہنما جیریمی کوربن بھی شامل ہیں۔‘

اس سال کے شروع میں وزیرخارجہ اور ٹوری پارٹی کی قیادت کے امیدوار جیریمی ہنٹ نے نازنین زاغری کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انہیں سفارتی تحفظ دے دیا تھا۔

2017 میں غلطی یہ ہوئی کہ جیریمی ہنٹ کے پیشرو اور وزارت عظمیٰ کے لیے ان کے حریف بورسن جانسن نے کہا تھا کہ نازنین زاغری لوگوں کو صحافت کی تعلیم دینے کے لیے ایران میں تھیں، حالانکہ نازنین کے اہل خانہ کا اصرار تھا کہ وہ رشتہ داروں سے ملنے ایران آئیں۔

بورسن جانسن کئی بار کہہ چکے ہیں کہ نازنین زاغری کی مسلسل قید کے ذمہ دار پاسداران انقلاب ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل برطانیہ کی جانب سے خطرے میں گھرے افراد کے لیے مہم چلانے والی ایلی کینیڈی نے کہا ہے: ’ہمیں ڈر یہ ہے کہ ایرانی حکام نازنین زاغری کی صحت اور سلامتی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ نازنین کے خاندان کے علم میں لائے بغیر انہیں دماغی امراض کے ہسپتال منتقل کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس اقدام کا حقیقی مقصد نازنین کے علاج کی بجائے برطانیہ پر دباؤ ڈالنے سے بڑھ کر بھی ہو کچھ سکتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم دوسرے کیسوں سے جانتے ہیں کہ ایرانی جیل حکام بعض اوقات قیدیوں پر دباؤ کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کریں گے۔ اکثر ان ہتھکنڈوں کا مقصد زبردستی غلط اعترافات کرانا ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار قیدیوں کو مزید سزا بھی دی جاتی ہے۔‘

ایلی کینیڈی نے کہا: ’آخر کار نازنین زاغری اور ان کا خاندان ان حالات سے گزر رہا ہے، واقعی وقت آ گیا ہے کہ ایرانی حکام اس معاملے کو ختم کریں۔ نازنین کو رہا کرکے انہیں اپنی بیٹی گبریلا کے ساتھ برطانیہ واپس جانے دیں۔ ‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا