موہنجودڑو کی عورتیں حسن کا خاص خیال رکھتی تھیں

قدیم آثار سے جو مورتیاں ملی ہیں ان کے مطالعے سے ہم عورت کی شخصیت اور اُس کے کردار کا تعین کر سکتے ہیں۔ اُس کارہن سہن کیسا تھا وہ کس قسم کا لباس پہنتی تھی اور وہ کونسے زیورات استعمال کرتی تھی۔

(اے ایف پی)

وادی سندھ کی تہذیب اگرچہ دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں بہت مختلف ہے لیکن اس کے بارے میں ہماری معلومات ابھی تک بہت محدود ہیں کیونکہ صرف آثار قدیمہ اور اُن سے ملنے والی اشیا، جن میں اوزار، آلات، زیورات اور روزمرہ کے استعمال کی چیزیں شامل ہیں، کی ہی مدد سے تہذیب کے بارے میں معلومات اکٹھی کی گئی ہیں۔

 میسوپوٹامیہ اور مصر کی تہذیبوں کے بارے میں ہمارے علم میں اُس وقت وسعت آئی جب ان کے رسم الخط کو پڑھ لیا گیا۔ لیکن وادی سندھ کا رسم الخط دریافت نہیں ہو سکا کیونکہ اس کی ہمارے پاس کوئی طویل تحریر نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ دوسری زبانوں کی تحریریں ملی ہیں۔ اس لیے یہ تہذیب ابھی تک معلومات کے لحاظ سے ادھوری ہے۔ ہمیں اس تہذیب کی سماجی اور ثقافتی حالات کا علم نہیں ہے اور نہ ہی یہ علم  ہے کہ اس کے سماج میں عورت کی کیا حیثیت تھی۔ کیا اس میں مادر سری نظام کے آثار تھے یا پدرسری نظام نے اپنی بالادستی کو قائم کر دیا تھا؟

قدیم آثار سے جو مورتیاں ملی ہیں ان کے مطالعے سے ہم عورت کی شخصیت اور اُس کے کردار کا تعین کر سکتے ہیں۔ اُس کا رہن سہن کیسا تھا وہ کس قسم کا لباس پہنتی تھی اور وہ کون سے زیورات استعمال کرتی تھی۔ فیشن کی تبدیلی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے ان کی مدد سے عورت کے بارے میں اپنے تاثرات تشکیل کیے ہیں۔

ادریس صدیقی نے اپنی کتاب’ وادی سندھ کی تہذیب‘ میں ملنے والی مورتیوں کی مدد سے اُن زیورات کی تفصیل دی ہے جو عورتیں پہنتی تھیں۔ انہوں نے تحقیق کے بعد ان زیورات کی شکل اور اُن کی ہیئت کو بھی بیان کیا ہے۔ استعمال کرنے والے زیورات میں ہار، گلوبند، کانوں میں پہننے والے بُندے، ہاتھوں میں سونے چاندی کی چوڑیاں اور کڑےتھے  جبکہ نچلے درجے کی عورتیں مٹی کی بنی چوڑیاں پہنتی تھیں۔ ماتھے پر جھومر اور پیروں میں پازیب ہوا کرتی تھی۔ بالوں کو بھی آراستہ کیا جاتا تھا۔ آنکھوں میں کاجل لگانے کا رواج تھا اور رخساروں پر غازہ ملا جاتا تھا۔ اُن کا لباس بغیر سِلے ایک کپڑے میں لپیٹ لیا جاتا تھا۔ شاید یہ ساڑھی کی ابتدائی شکل ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تفصیل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زیورات کو بنانے میں جس کاریگری اور فن کی ضرورت تھی وہ ان کے سماج میں پایا جاتا تھا۔ سونے چاندی کے استعمال سے بھی پتہ چلتا ہے کہ معاشی طور پر بھی خوشحالی تھی۔ نچلے درجے کی خواتین تانبے اور کانسی کے زیورات استعمال کرتی تھیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عورتوں میں خوبصورتی کا احساس پیدا ہو چکا تھا جس کا اظہار وہ اپنے لباس اور زیورات کے ذریعے کرتی تھیں۔

ہمیں عورت اور مرد کے درمیان غیرمساوی سلوک نظر نہیں آتا جس کا مطلب یہ تھا کہ معاشرے میں مساویانہ نظام قائم تھا اور عورتوں کی عزت کی جاتی تھی۔ لوگوں کے گھروں کی تعمیر سے بھی یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ عورتیں اور مرد علیحدہ علیحدہ حصوں میں نہیں رہا کرتے تھے جیسا کہ یونان میں رواج تھا۔

 بچوں کے جو کھلونے ملے ہیں وہ خاندان کی ساخت کا پتہ دیتے ہیں۔ بچوں سے محبت کی جاتی تھی اور انہیں خوش رکھنے کے لیے کھلونے بنائے جاتے تھے۔

ہمیں اُن کے مذہب اور عقیدے کے بارے میں تو کچھ پتہ نہیں مگر جیسا کہ سرموتمر ویلر نے ’وادی سندھ اور تہذیبیں‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک مورت ایسی ملی ہے جسے وہ ماتا دیوی کہتے ہیں۔ اس مورت کے نیچے ایک پجاری اور عورت کی مورت ہے ۔ان کا خیال ہے کہ شاید اس عورت کو یہاں قربانی کے لیے لایا گیا ہے۔ لیکن یہ کوئی حتمی بات نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب میں دیویوں کی تعداد بہت ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عورت کی حیثیت معاشرے میں اہم تھی۔ ان دیویوں کو خوش رکھنے کے لیے پجارن عورتیں تھیں جو گانے اور رقص سے ان کو لبھاتی رہتی تھیں۔

وادی سندھ کے تاجر اپنی اشیا لے کر مشرق وسطیٰ تک جایا کرتے تھے۔ ان اشیا کی تیاری میں یقیناً عورتوں کا بھی حصہ ہوتا ہو گا۔ جیسے ہاتھی دانت کے بنے کنگن، کنگھے اور سیسے سے صاف کیے ہوئے آئینے۔ یہ سب اشیا تہذیب کی ترقی اور اُس کی تخلیقی ذہن کی غماز ہیں۔ 

ہمیں عورتوں کی شادی بیاہ، جہیز کی رسم، جائیداد کی وراثت اور منانے والے تہواروں کے بارے میں پتہ نہیں چلتا ہے۔ یقیناً یہ سب سماج کا حصہ رہے ہوں گے۔ یہاں پر ملنے والی مہروں سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اُن پر بنائے گئے جانوروں کے نقوش اُن کے آرٹسٹ ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔

وادی سندھ کی تہذیب اور اُس کے آرٹ کے دو اہم نمونے ’پجاری بادشاہ‘ اور ’ناچ گرل‘ کے بارے میں پروفیسر شیریں رتناگر، جنہوں نے ہڑپہ کی تہذیب پر ایک کتاب لکھی ہے، کا کہنا ہے کہ کیونکہ انگریز ہندوستان میں ’ناچ گرل‘ سے واقف تھے اس لیے انہوں نے اس مجسّمے کو یہ نام دے دیا۔ لیکن درحقیقت یہ مجسمہ وادی سندھ کے آرٹ کا بہترین نمونہ ہے جس میں عورت کی خوبصورتی کو دکھایا گیا ہے۔

کیونکہ ہمارے پاس وادی سندھ کی تہذیب کا سماجی اور ثقافتی علم نہیں ہے اس لیے ہم اس پوری طرح سے وضاحت نہیں کر سکتے کہ اس تہذیب میں عورت کا اصل مقام کیا تھا اور یہ دنیا کی دوسری تہذیبوں سے کس طرح مختلف تھی۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس تہذیب کی دریافت کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی بہت سی روایات اس کے ساتھ زمین میں دفن نہیں ہوئیں، بلکہ ہندوستان کے معاشرے میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین