’گھبراؤ نہیں، بس احمقوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگتے رہو‘

ٹمیرمینز کے مطابق برطانوی وزرا نے یہ کرتب دکھانے کی بجائے ’ڈیڈز آرمی‘ کے کردار لینس کارپورل جونز جیسا کردار ادا کیا ہے۔    

یورپی یونین کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے برطانیہ کے بریگزٹ مذاکرات کاروں کو معروف کلاسیک مزاحیہ ٹی وی پروگرام ’ڈیڈز آرمی‘ کے بدقسمت کرداروں سے تشبہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ احمقوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔

یورپی کمیشن کے نائب صدر فرانس ٹمیرمینز نے کہا کہ برسلز میں یورپی رہنما سمجھتے ہیں کہ برطانوی وزرا، جنہوں نے 2017 سے مذاکرات کا آغاز کیا تھا، ہیری پوٹر کی طرح کوئی جادوئی کرتب پیش کریں گے۔

تاہم ٹمیرمینز کے مطابق برطانوی وزرا نے یہ کرتب دکھانے کی بجائے ’ڈیڈز آرمی‘ کے کردار لینس کارپورل جونز جیسا کردار ادا کیا ہے۔    

بی بی سی کے پروگرام ’پینوراما‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہمارا خیال تھا کہ ویسٹ منسٹر کے کسی محراب میں بیٹھے [برطانوی حکام] اتنے ہی تیز طبع ہوں گے کہ ان کے پاس ہیری پوٹر جیسی کوئی کتاب ہو گئی جس میں تمام چیزوں کے [حل] کے لیے کرتب موجود ہیں۔‘

’پھر ڈیوڈ ڈیوس کے عوامی بیانات میری نظر سے گزرے۔ میں نے سوچا: یا میرے خدایا ان کے پاس تو [بریگزٹ کے لیے] کوئی خاکہ ہی نہیں تھا۔ ایمانداری سے پوچھیں تو یہ میرے لیے چونکا دینے والی بات تھی کیونکہ ایک نقصان کے لیے آپ کے پاس کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں تھی۔ یہ لینس کارپورل جونز جیسا تھا جو کہتے تھے گھبراؤ نہیں، گھبراؤ نہیں، بس احمقوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگتے رہو۔‘

ٹمیرمینز نے سابق برطانوی وزیرخارجہ بورس جانسن پر بھی بریگزٹ کے معاملے میں کھیل کھیلنے کا الزام لگایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹمیرمینز کا کہنا تھا کہ انہیں یورپی یونین یا بریگزٹ کے معاملے میں بورس جانسن کے نقطہ نظر کے مستند ہونے پر کبھی یقین نہیں رہا۔

’شاید میں کچھ زیادہ ہی سخت ہو رہا ہوں لیکن اس وقت نے ہی ہمیں سخت ہونے پر مجبور کیا ہے۔‘

بریگزٹ پر یورپی یونین کے چیف مذاکرات کار مائیکل بیرنئیر نے بی بی سی کے ہی ایک پروگرام میں کہا ہے کہ اگر برطانیہ کسی ڈیل کے بغیر یونین چھوڑتا ہے تو اسے اس کے نتائج بھگتانا پڑیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مستعفی ہونے والی برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے اور ان کے وزرا نے مذاکرات کے دوران کبھی ‘نو ڈیل بریگزٹ‘ کے انتخاب کی تجویز نہیں دی۔

’میرا خیال ہے کہ برطانیہ، جو یورپی یونین کے کام کرنے کے طریقوں سے اچھی طرح آگاہ ہے، کو آغاز سے ہی بخوبی علم تھا کہ ہم کسی دھمکی سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ ایسا کرنا سودمند ثابت نہیں ہو گا۔‘

ادھر یورپی یونین کے اعلیٰ ترین عہدیدار مارٹن سیلمیر کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں برطانیہ کسی معاہدے کے بغیر یونین سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

’ہم اپنی سرحد کی اِس جانب ایک مشکل بریگزٹ کے معاہدے کی تیاریاں دیکھ سکتے ہیں جبکہ سرحد کی دوسری جانب ایسی تیاری نظر نہیں آتی۔‘

دوسری جانب ٹریزا مے کے نائب ڈیوڈ لڈنگٹن نے بی بی سی کے پروگرام پینوراما کو بتایا کہ یورپی یونین نے خفیہ طور پر بریگزٹ کو آئندہ پانچ سالوں تک منجمند رکھنے کی تجویز دی تھی تاکہ یورپ کے لیے نئے معاہدے کی تیاری کی جا سکے۔

’مارٹن سیلمیر کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ دیکھیے کیوں نہ ہم ایک ایسا معاہدہ کر لیں جس کے تحت اس معاملے کو پانچ سالوں تک کے لیے منجمد کر دیا جائے؟ پھر دیکھتے ہیں کہ معاملات کیسے چلتے ہیں، برطانیہ کو فرانس اور جرمنی سے وابسطہ کر دیتے ہیں، گرد کو بیٹھنے دیتے ہیں پھر دیکھتے ہیں یورپ کے ساتھ نئے معاہدے کے لیے بات چیت کو کیسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔‘
 

   

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ