قبائلی اضلاع میں تاریخی انتخابات مکمل، نتائج میں وقت لگے گا

قبائلی اضلاع میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر جہاں قبائلی عوام پرجوش نظر آئے، وہیں سیاسی مبصرین اسے بڑی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔

 قبائلی اضلاع کی تاریخ میں پہلی بار خیبر پختونخوا اسمبلی کی 16 نشستوں کے لیے ووٹنگ سنیچر کو مکمل ہوئی لیکن نتائج مرتب کرنے میں انتخابی کمیشن کے اہلکاروں کے مطابق وقت لگ سکتا ہے۔ ابتدائی غیرحتمی نتائج ملا جلا رجحان ظاہر کر رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق بعض قبائلی اضلاع میں موبائل اور انٹرنٹ سروس کے مسائل ہیں جبکہ بعض جگہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے رات کو نقل و حرکت ممکن نہیں ہے لہذا غیرحتمی تنائج مرتب کرنے میں ایک دن لگ سکتا ہے۔

انتخابات کے غیر حتمی، غیر سرکاری جزوی نتائج

باجوڑ ون - پی کے 100

77 پولنگ سٹیشنز کے نتائج

تحریک انصاف کے انور زیب خان 10916 ووٹ لے کر پہلے نمبر پر

جماعت اسلامی کے وحید گل 8529 ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر

باجوڑ ٹو - پی کے 101

60 پولنگ سٹیشنز کے نتائج

جماعت اسلامی کے صاحبزادہ ہارون الرشید 7005 ووٹ کے ساتھ پہلے نمبر پر

تحریک انصاف کے اجمل خان 5734 ووٹ کےساتھ دوسرے نمبر پر

باجوڑ تھری - پی کے 102

پولنگ سٹیشنز میں سے 56 کے نتائج

جماعت اسلامی کے سراج الدین 11101 ووٹ کے ساتھ پہلے نمبر پر

آزاد امیدوار خالد خان 6931 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر

ضلع مہمند پی کے 103

40 پولنگ سٹیشنز کا نتیجہ 

نثار مہمند عوامی نیشنل پارٹی 6065
پی ٹی آئی رحیم شاہ 5506
جے یو آئی مولانا گلاب نور 3695

مومند پی کے 104

52 پولنگ سٹیشنوں کا نتیجہ۔
جے یو آئی کے محمد عارف 8013۔

آزاد امیدوار کے عباس خان۔6738

پی ٹی آئی کے سجاد خان 5443۔

56 پولنگ سٹیسن کے نتائج ابھی باقی ہیں۔

ضلع خیبر، پی کے 105 
آزاد امیدوار الحاج شفیق شیر آفریدی کامیاب

9789 ووٹ کے ساتھ آزاد امیدوار شیرمت خان دوسرے نمبر پر

کرم پی کے 109
ٹوٹل پولنگ سٹیشنز 131 
رزلٹ 70 پولنگ سٹیشن 
سید اقبال میاں پی ٹی آئی 19062
عنایت علی طوری۔۔ آزاد ۔ 10751
ابرار جان ۔۔ آزاد ۔۔ 4221

اورکزئی حلقہ پی کے 110

غازی غزن جمال آزاد امیدوار 11651پہلے نمبر پر 

شعیب حسن پی ٹی آئی 7294 دوسرا نمبر 

جوہر عباس آزاد امیدوار 3174تیسرا نمبر 

ملک حبیب نور آزاد امیدوار   2626 چوتھا نمبر

جنوبی وزیرستان پی کے 114

56 پولنگ سٹیشن کے نتائج

نصیراللہ وزیر پی ٹی آئی 6278
عارف وزیر ازاد امیدوار 4952

محمد صالح جے یو آئی 3508

_______

انتخابات کے لیے پولنگ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہی۔ پولنگ کے دوران کسی بھی ضلع میں کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تاہم بعض علاقوں میں پارٹی کارکنوں کے درمیان تکرار اور جھگڑوں کے کچھ واقعات رپورٹ ہوئے۔

قبائلی عوام اور سیاسی مبصرین اس الیکشن کو علاقے کی ترقی کے لیے ایک بڑی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔

قبائلی اضلاع پہلے قبائلی علاقوں کے نام سے پکارے جاتے تھے، انہیں علاقہ غیر تصور کیا جاتا تھا اور یہاں پر انگریز دور کا قانون ’فاٹا کرائمز ریگولیشن‘ نافذ تھا۔ ان علاقوں کو خیبر پختونخوا کے دیگر بندوبستی اضلاع جیسی مراعات، تعلیم و صحت کی سہولیات اور زندگی کے مختلف شعبوں میں وہ ترجیح نہیں دی جاتی تھی جو انہیں ملنی چاہیے تھی۔ 

قبائلی اضلاع میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو وہاں کے باشندے ایک خوش آئند قدم سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے صوبائی اسمبلی میں جا کر علاقے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی 16 نشستوں کے لیے کُل 285 امیدوار میدان میں ہیں جن میں 283 مرد جبکہ صرف دو خواتین امیدوار ہیں۔ مخصوص نشستوں کی تعداد تین ہے جن میں سے چار خواتین اور ایک سیٹ غیر مسلم امیدوار کے لیے ہے۔ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر آٹھ امیدواروں جبکہ غیر مسلموں کے لیے مخصوص ایک نشست پر تین امیداروں میں مقابلہ ہے۔
اس سے پہلے قبائلی اضلاع سے 12 ارکان قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوتے تھے لیکن پاکستانی آئین  کے آرٹیکل 147 کے تحت انہیں اپنے علاقوں کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار نہیں تھا اور کسی بھی قانون سازی کو صدر کے دستخط سے مشروط کیا گیا تھا۔ تاہم اب یہ منتخب نمائندے صوبائی اسمبلی میں بیٹھ کر اپنے علاقے کے مسائل پر کھل کر بات بھی کر سکیں گے اور علاقے کے حوالے سے قانون سازی بھی کر سکیں گے۔
روزنامہ ڈان سے وابستہ وسیم احمد خان گذشتہ 20 برس سے قانونی معاملات پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’آج کے انتخابات میں منتخب ہونے والے ارکان کو اتنا ہی اختیار حاصل ہوگا جتنا دیگر اضلاع کے ارکان اسمبلی کو حاصل ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ جب 25 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا تو پیچیدگیاں پیدا ہو گئی تھیں لیکن بعد میں پشاور ہائی کورٹ نے ان پر فیصلہ دیا اور وضاحت کی کہ جیسا قانون دیگر اضلاع میں ہوگا ضم ہونے کے بعد قبائلی اضلاع میں بھی وہی قانون نافذ العمل ہوگا۔ ’ضم ہونے کے بعد قبائلی اضلاع سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی اپنے علاقے کے لیے ترقیاتی پراجیکٹس کی تجاویز دے سکیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

وسیم نے بتایا: ’چونکہ قبائلی اضلاع کے لیے بجٹ صوبائی اسمبلی سے ہی پاس ہوگا لہذا یہی منتخب ارکان علاقے کی ترقی کے لیے کھل کر بات سکیں گے اور بجٹ میں مختلف پراجیکٹس کی تجاویز دے سکیں گے۔ اس سے پہلے یہ سب کچھ وفاق میں ہوتا تھا اور اس عمل میں قبائلی علاقوں کو وہ نمائندگی نہیں دی جاتی تھی جو ضروری تھی‘۔

قبائلی عوام کیا کہتے ہیں؟ 

قبائلی عوام میں بھی موجودہ انتخابات کے بارے میں جذبہ ماضی میں ہونے والے انتخابات سے زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابی مہم میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور وہ ان انتخابات کو علاقے کے ترقی کے لیے ایک اہم سنگ میل سمجھتے ہیں۔

ضلع خیبر کے رہائشی زرغون شاہ آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا وہ پہلی بار صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ ڈال رہے ہیں اور وہ اس ووٹ کو دراصل پاکستان میں شامل ہونے کے لیے ایک  ووٹ سمجھتے ہیں۔

انھوں نے بتایا: ’پہلی بار احساس ہورہا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور جو حق ہمیں کئی دہائیوں پہلے ملنا چاہیے تھا وہ آج ہمیں مل گیا ہے جس پر نہایت ہی خوشی کا احساس ہورہا ہے۔‘

صوبائی الیکشن کمیشن کے ترجمان سہیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قبائلی اضلاع میں تھری جی اور فور جی کی سروس نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی عملہ اس سسٹم کے تحت نتائج ارسال نہیں کر سکے گا جو 2018 کے عام انتخاب میں استعمال کیا گیا تھا۔

ترجمان نے بتایا کہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کے مسائل ہیں وہاں پولنگ عملہ واٹس ایپ کے ذریعے رزلٹ کے فارمز ریٹرننگ افسران کو بھجیں گے جبکہ رزلٹ کی تیاری الیکشن کمیشن کے رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم کے ذریعے ہوگی۔
 
باجوڑ میں انٹرنیٹ سروس کی بندش

باجوڑ کے ایک مقامی صحافی بلال یاسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولنگ کے دوران تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ کو بند کردیا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ صبح پولنگ شروع ہونے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد انٹرنٹ سروس کو بند کردیا گیا۔ حکام نے اس بندش کی کوئی وجہ نہیں بتائی تاہم یہ کہا گیا کہ کل صبح سات بجے تک سروس بحال ہو جائے گی۔

’ہمیں کہا الیکشن کمیشن کا کارڈ نہیں چلے گا‘

ضلع خیبر میں کوریج کے لیے موجود صحافیوں کو مختلف پولنگ سٹیشنوں میں کوریج سے روک دیا گیا تھا۔ ہم نیوز سے وابستہ صحافی ذیشان انور نے انڈپینڈنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک پولنگ سٹیشن میں جب وہ اندر جانا چاہتے تھے تو سیکورٹی اہلکار نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ یہاں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ کارڈ نہیں چلے گا، اپنے ساتھ اتھارٹی لیٹر لے کر آئیں۔

نجی میڈیا کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے کچھ صحافیوں کو بھی کچھ جگہوں پر پولنگ سٹیشن جانے سے روک دیا گیا۔ صحافیوں کو ایک ہی وجہ بتائی گئی کہ ان کے پاس متعلقہ ادارے سے جاری کردہ اتھارٹی لیٹر موجود نہیں ہے لیکن الیکشن کمیشن کے علاوہ انہیں مذکورہ متعلقہ ادارے کا نام نہیں بتایا گیا۔

میڈیا نمائندوں کو روکنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے ترجمان سہیل احمد کا کہنا تھا کہ پورا دن ٹی وی پر پولنگ سٹیشنز کی فوٹیجز چل رہی تھیں، جس کا مطلب ہے کہ میڈیا کو نہیں روکا گیا ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ  کسی بھی شکایت کی صورت میں ضلعی ریٹرننگ آفیسر سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست