ایران نے دو برطانوی آئل ٹینکر قبضے میں لے لیے

ایران کا دعویٰ ہے کہ جمعے کو تحویل میں لیے گئے تیل بردار جہاز نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔

ایران نے آبنائے ہرمز میں دو برطانوی آئل ٹینکرز قبضے میں لے لیے ہیں۔

کچھ دنوں پہلے برطانیہ کے رائل میرینز نے ایک ایرانی آئل ٹینکر پر قبضہ کر لیا تھا جس پر تیل شام لے جانے کا شبہ تھا۔

ایران کے پاسداران انقلاب نے جمعے کو برطانوی وقت کے مطابق شام چار بجے برطانیہ میں رجسٹرڈ سٹینا ایمپیرو نامی تیل بردار جہاز کو اپنی تحویل میں لیا۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ تیل بردار جہاز نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ تھوڑی دیر بعد ہی پاسداران انقلاب نے ایم وی میڈسر نامی آئل ٹینکر پر بھی قبضہ کر لیا جسے ایرانی ساحل سے کچھ دور دیکھا گیا۔

آئل ٹینکر ایم وی میڈسر کی مالک کمپنی نور بلک شپنگ نے ٹینکر کی سمت تبدیل ہونے کے تقریباً پانچ گھنٹے بعد کہا کہ اس پر مسلح گارڈ سوار تھے۔

عملے نے کمپنی سے رابطہ کیا جس کے بعد اسے اپنے راستے پر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ جہاز ران کمپنی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آئل ٹینکر پر موجود مسلح گارڈ ایرانی پاسداران انقلاب تھے۔ کمپنی نے بیان میں کہا: ’ تمام عملہ محفوظ ہے۔‘

ایرانی پاسداران انقلاب نے بھی آئل ٹینکر پر قبضے کی تردید کی ہے۔ ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے ’تسنیم‘ نے علاقائی فوجی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر دی۔

اطلاع میں کہا گیا: ’ ایرانی فورسز نے سکیورٹی مسائل کے بارے میں خبردار کرنے کے بعد آئل ٹینکر کو اپنے راستے پر سفر کی اجازت دے دی تھی۔‘

سٹینا ایمپیرو نامی تیل بردار جہاز کی مالک شپنگ کمپنی سٹینا بلک نے کہا: ’ آبنائے ہرمز میں نامعلوم کشتیاں اور ہیلی کاپٹر آئل ٹینکر کے قریب آئے۔ اس وقت آئل ٹینکر بین الاقوامی پانیوں میں تھا۔‘

جہاز ران کمپنی نے ایک بیان میں بتایا آئل ٹینکر پر عملے کے 23 ارکان سوار تھے جن میں بھارت، روس، لٹویا اور فلپائن کے شہری شامل ہیں۔ کمپنی کے ترجمان نے مزید کہا: ’ آئل ٹینکر عملے کے کنٹرول میں نہیں اور نہ ہی اس سے رابطہ ہو رہا ہے۔ ‘

ایرانی پاسداران انقلاب کے ساتھ قریبی رابطے میں رہ کر کام کرنے والے خبر رساں ادارے تسنیم نے ایرانی بندرگاہ کے سربراہ کے حوالے سے کہا: ’ ہمیں اطلاعات ملی تھیں کہ برطانوی آئل ٹینکر سٹینا ایمپیرو مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس لیے ہم نے فورسز سے کہا تیل بردار جہاز کی بندر عباس کی جانب رہنمائی کریں تاکہ ضروری چھان بین کی جا سکے۔‘

نام ظاہر نہ کرنے والے ذرائع نے بھی کہا کہ آئل ٹینکر بچ جانے والا تیل سمندر میں پھینک کر آبی ماحول کے مسئلہ پیدا کر رہا تھا۔

برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے کہا ایرانی اقدامات ’ ناقابل قبول‘ ہیں جبکہ جہاز رانی کی صنعت کے عہدے داروں نے ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے بعد تجارتی بحری جہازوں کے لیے حفاظتی انتظامات بڑھانے پر زور دیا ہے۔

برطانوی دفاعی ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ایرانی تیل بردار جہاز گریس ون ایران کے سپرد کرنے کی مشروط پیش کش کے بعد آئل ٹینکروں پر قبضے سے وزارت دفاع کو حیرت ہوئی ہے۔ گریس ون کو دو ہفتے پہلے جبرالٹر کی سمندری حدود میں روکا گیا تھا۔ ایران سے ضمانت دینے کے لیے کہا گیا تھا کہ اس کا آئل ٹینکر شام نہیں جائے گا۔

ذرائع نے مزید کہاخلیجی علاقے میں موجود برطانوی جنگی بحری جہاز ایچ ایم ایس مونٹروز کی مدد کے لیے جانے والا بحری جہاز ایچ ایم ایس ڈنکن سفر میں ہے۔

برطانوی جنگی بحری جہاز مونٹروز نے گذشتہ ہفتے آبنائے ہرمز میں بی پی آئل ٹینکر کا راستہ روکنے کی کوشش کرنے والی ایران پاسداران انقلاب کی کشتیوں کا مقابلہ کیا تھا۔

برطانوی وزیر خارجہ نے ایران کی جانب سے دو آئل ٹینکرز پر قبضے کے بعد کوبرا کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’ تہران میں ہمارے سفیر صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایرانی وزارت خارجہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہم عالمی شرکت داروں کے ساتھ بھی قریبی رابطے میں کام کر رہے ہیں۔ آئل ٹینکرز پر ایرانی قبضہ ناقابل قبول ہے۔ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ جہاز رانی بحال رکھی جائے اور علاقے میں تمام بحری جہاز سلامتی کے ساتھ آزادانہ سفر کر سکیں۔ ‘

وزارتی اجلاس کے بعد برطانوی حکومت کی ترجمان نے ایک بیان میں کہا: ’ برطانیہ کو ایرانی اقدامات پر گہری تشویش ہے۔ یہ اقدامات بین الاقوامی سطح پر آزادانہ جہاز رانی کے لیے کھلا چیلنج ہیں۔ ہم نے برطانوی جہاز ران کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فی الحال خلیجی علاقے سے دور رہیں۔‘

ترجمان نے مزید کہا: ’ جیسا کہ وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارا جواب نپا تلا اور بھرپور ہو گا اور مسئلہ حل نہ ہونے کے نتائج سنگین ہوں گے۔ ہمارا اپنے بین الاقوامی شراکت داروں سے قریبی رابطہ ہے اور ہفتے کے اختتام پر مزید اجلاس ہوں گے۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا وہ برطانوی آئل ٹینکرز پر ایرانی قبضے پر برطانیہ سے صلاح مشورہ کریں گے۔ اس سے پہلے دن کے آغاز میں امریکی بحریہ کی جانب سے آبنائے ہرمز میں ایرانی ڈرون مار گرانے کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان لفظی جنگ ہوئی۔ ایران نے اپنا ڈرون مار گرائے جانے کی تردید کی ہے۔

برطانوی ایوان جہاز رانی کے عہدے دار بوب سنگوئنیٹی نے ایرانی پاسداران انقلاب کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’ اس کارروائی میں ملوث افراد نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ اس واقعے سے کشیدگی میں اضافہ ہو گا، ایسے وقت میں جب ہم ہم نپے تلے جواب پر زور دے رہے ہیں یہ بھی واضح ہے کہ مستقبل میں ہمارے بحری جہازوں کی سلامتی کے لیے اضافی اقدامات ضروری ہو گئے ہیں تاکہ علاقے میں آزادانہ تجارت یقینی بنائی جا سکے۔‘

برطانوی آئل ٹینکرز پر قبضہ نہ صرف ایرانی تیل بردار جہاز گریس ون پر قبضے بلکہ سخت امریکی پابندیوں کے خلاف ایران کی جانب سے احتجاج کے طور پر یورینئم کی افزودگی کے دوبارہ آغاز کے بعد کشیدگی میں اضافے کے بعد کیا گیا ہے۔

امریکی صدر ایٹمی معاملے پر ایران، برطانیہ اور عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ ہو گئے تھے جس کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا۔

ایران نے معاہدے میں کسی بھی تبدیلی سے انکار کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر یورپی ممالک نے امریکی پابندیوں کے اثرات کو محدود کرنے میں اس کی مدد نہ کی تو وہ معاہدے کی شرائط کی مزید خلاف ورزی کرے گا۔

ایران افزودہ یورینئم کی تیاری پر پابندی کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ یہ یورینئم ایٹمی ری ایکٹر کے لیے ایندھن کے طور پر کام آتی ہے لیکن اس سے ایٹم بم بھی بنایا جا سکتا ہے۔

یورپی ممالک کے رہنما ایران کے ساتھ کیا گیا معاہدہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایرانی مطالبات پورے کرنے کے قابل نہیں، جن میں خاص طور پر امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کے بغیر ایرانی تیل کی فروخت شامل ہے۔

سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں ڈپٹی نائب وزیر دفاع رہنے والے وکرم سنگھ کے مطابق برطانوی آئل ٹینکر سٹینا ایمپیرو پر ایرانی قبضہ کشیدگی میں ایک اور بڑا اضافہ ہے۔ انہوں نے سکائی نیوز کو بتایا: ’ ڈرون طیارے گرانے کے ڈرامے سے بھی بڑھ کر....موجودہ صورت حال تیل اور توانائی کی ترسیلات کے لیے حقیقی طور پر بڑا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے معاملے پر یورپی ممالک کے اختلاف کے بعد برطانوی آئل ٹینکرز پر ایرانی قبضے کا واقعہ انہیں ایران سے متعلق پالیسی پر امریکی صدر کے زیادہ قریب کر سکتا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا