مشرف دورکے بعد اپوزیشن کی میڈیا کوریج پر پھر غیراعلانیہ پابندی

سابق صدر آصف زرداری کا انٹرویو نشر ہونے سے روکنے کے بعد مریم نواز کی میڈیا ٹاک نشر اور شائع کرنے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اپوزیشن کو 25 جولائی کو ’یوم سیاہ‘ کے دوران بھی میڈیا کوریج پر پابندی کا خدشہ ہے۔

پیمرا کی جانب سے میڈیا کے لیے طے کی گئی  گائیڈ لائنز  کے  مطابق سزا یافتہ اور اداروں کے خلاف بیان بازی کرنے والوں کو کوریج نہیں دی جاسکتی (فائل: اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جب حزب اختلاف میں تھی تو کئی کئی ماہ اسلام آباد میں دھرنوں اور تقریباً ہر ہفتے کے اختتام پر جلسوں اور جلسوں میں کی گئی سیاسی تقریریں کسی پابندی کے بغیر گھنٹوں ٹی وی پر نشر کی گئیں لیکن اب حکومت کا کہنا ہے کہ سزا یافتہ افراد اور اداروں کے خلاف بیان بازی کرنے والوں کو کوریج نہیں دی جا سکتی۔

تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق سیکریٹری اطلاعات عمر سرفراز چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت کی جانب سے میڈیا پر کوئی پابندی نہیں لیکن پیمرا کی جانب سے میڈیا کے لیے رہنما اصول طے کیے گئے ہیں، جس کے مطابق میڈیا نے اپنی بترجیحات خود بنائی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ان رہنما اصولوں کے مطابق سزا یافتہ اور اداروں کے خلاف بیان بازی کرنے والوں کو کوریج نہیں دی جا سکتی۔‘

عمر سرفراز چیمہ کے مطابق ’جس طرح بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی کوریج پر پابندی لگائی گئی، اُسی طرح جو عدالتی مجرم ہیں انہیں بھی عوام کو گمراہ کرنے اور انتشار پھیلانے سے روکا گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’قومی مفادات کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، اس لیے کسی شرپسند کو اداروں کے خلاف سازش کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

پیپلز پارٹی کا دور ہو یا مسلم لیگ ن کا، اپوزیشن نے میڈیا کو حکومت کے خلاف مہم جوئی میں خوب استعمال کیا۔ گذشتہ دور حکومت میں جو میڈیا کوریج چاہتے نہ چاہتے ہوئے موجودہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کو دلوائی گئی، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

موجودہ دور میں خاص طور پر مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کی تقاریر، جلسے جلوس اور ریلیاں دکھانے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا انٹرویو بھی رکوا دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمٰن اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی کوریج کو بھی ناممکن سمجھا جا رہا ہے۔

اپوزیشن کا ردعمل

مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کا کہنا ہے کہ ’اپوزیشن کی میڈیا کوریج پر پابندی اور چینل بند کرنے کا مقصد حکومتی نااہلی اور معاشی بحران پر پردہ ڈالنا ہے۔ آزادی اظہارِ رائے کا دعویٰ کرنے والے اپوزیشن سے خوفزدہ ہیں۔‘

انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’عوام حالات سے بیزار ہو چکے ہیں۔ فیصل آباد میں کنٹینرز لگا کر رکاوٹیں کھڑی کرنے، پکڑ دھکڑ اور میڈیا پر پابندیوں کے باوجود کارکن پوری رات سڑکوں پر رہے، ان کو کیسے روکو گے؟‘

انہوں نے کہا کہ ’میڈیا پر پابندیاں لگا کر عوامی آواز اور احتجاج کو نہیں دبایا جا سکتا۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں عوام تک آواز پہنچانے سے روکنے کے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘

پیپلز پارٹی کے رہنما نوید چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جمہوریت کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والی جماعت عوام کش پالیسیوں پر عوامی ردعمل سے خوفزدہ ہیں۔ ایسے آمرانہ اقدامات سے حکومت اپنے لیے خود گڑھے کھود رہی ہے۔ ایسے ہتھکنڈوں سے ہمیشہ عوامی ردعمل میں شدت آئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے والے طاقتور آمر بھی عوامی بہاؤ کا مقابلہ نہ کر سکے تو ایک بے اختیار وزیراعظم کی کیا حیثیت ہے؟‘

یہ بھی پڑھیں: کیا مجرم، ملزم کو میڈیا سے دور رکھنا قانوناً درست ہے؟

نجی چینل کے ایم ڈی نصر اللہ ملک نے اس حوالے سے کہا کہ ’جب حکمران جماعت پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی تو شہروں کو بند کیا گیا۔ صبح شام جلسے، جلوس اور ریلیاں نکال کر عوام کا سڑکوں پر چلنا محال کیا گیا لیکن اُس وقت کی حکومت نے میڈیا پر سب کچھ کور ہونے دیا۔ اسلام آباد دھرنے کی 126 دن کوریج صبح، دوپہر، شام ہوتی رہی اور کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اگر اپوزیشن رہنماؤں پر ملزم ہونے کی بنیاد پر غیر اعلانیہ کوریج پر پابندی ہے تو کئی حکومتی وزرا پر بھی مختلف الزامات ہیں، لیکن ان کی کوریج کسی نے نہیں روکی۔ پی ٹی وی حملہ کیس میں ملوث ہونے کے باوجود دھرنوں کے دوران عمران خان اور طاہر القادری کے خطابات کئی کئی گھنٹے اخبارات اور ٹی وی سکرینوں کی زینت بنے رہے، اُس وقت آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہ لگائی گئی۔ شاید اُس وقت حقیقی جمہوری حکومتیں تھیں۔‘

واضح رہے کہ سابق صدر آصف زرداری کا انٹرویو نشر کیے جانے سے روکنے کے بعد مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کے سابق جج کی ویڈیو منظرِعام پر لانے کے بعد سے ہی ان کے خطاب اور میڈیا ٹاک نشر اور شائع کرنے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی اور اب اپوزیشن کو 25 جولائی کو ’یوم سیاہ‘ کے دوران بھی میڈیا کوریج پر پابندی کا خدشہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان