بھارت: 132 دیہات میں تین ماہ میں ایک بھی ’لڑکی پیدا نہیں ہوئی‘

ان دیہات میں لڑکیوں کی شرح پیدائش خطرناک حد تک کم ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اسقاط حمل کے ذریعے لڑکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے: بھارتی حکام۔

گذشتہ سال پولیس کو ایک کیس کی تفتیش کے دوران مہاراشٹرا کے ایک ہسپتال کے قریب اسقاط حمل کا شکار 19 غیر مولود بچیاں ملی تھیں (پکسابے)

بھارت کے شمالی اضلاع میں مجسٹریٹ کی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ گذشتہ تین مہینوں کے دوران پیدا ہونے والے 216 بچوں میں ایک بھی لڑکی نہیں تھی۔

 تحقیقات کا آغاز جنس کی بنیاد پر کیے جانے والے اسقاط حمل کے شک پر کیا گیا۔ اتر آکھنڈ میں واقع اترکاشی حکام کے مطابق لڑکیوں کی شرح پیدائش خطرناک حد تک کم ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اسقاط حمل کے ذریعے لڑکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بھارت میں 1994 سے حاملہ عورتوں کے پیٹ میں لڑکیوں کے اسقاط پر پابندی عائد ہے لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات عام ہیں کیونکہ والدین بیٹے کو کفیل جبکہ بیٹی کو بوجھ سمجھتے ہیں۔

2011 میں کی جانے والی آخری مردم شماری کے مطابق بھارت میں ہر ہزار مردوں کے مقابلے میں 943 خواتین ہیں۔

اتر کاشی کے ضلعی مجسٹریٹ اشیش چوہان کہتے ہیں: ’علاقے میں محکمہ صحت کی اکٹھی کردہ معلومات کے مطابق لڑکیوں کی شرح پیدائش مشکوک حد تک کم اور لڑکیوں کے اسقاط حمل کی نشاندہی کرتی ہے۔‘

ان 132 دیہات جن میں گذشتہ تین ماہ کے دوران ایک بھی لڑکی پیدا نہیں ہوئی، کو ریڈ زون کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے، جس کے بعد مقامی سطح کی معلومات کی زیادہ نگرانی کی جائے گی اور محکمہ صحت کے ملازمین کو ہوشیار رہنے کا کہا گیا ہے۔

ٹی این این نیوز ایجنسی کے مطابق چوہان کا کہنا تھا کہ جو والدین غیرمولود بیٹی کا حمل گرانے میں ملوث پائے گئے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قانون ساز اسمبلی کے رکن گوپال راوت نے کہا: ’یہ بہت صدمے کا باعث ہے کہ 132 دیہات میں لڑکیوں کی شرح پیدائش صفر ہے۔ ہم نے پہاڑی علاقوں میں بیٹیوں کے اسقاط حمل جیسے واقعات کے بارے میں کم ہی سنا تھا۔ ہم نے محکمہ صحت کو ہدایات کی ہے کہ وہ اس سنگین معاملے کی حقیقی وجہ تلاش کریں اور اسے حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ محکمہ صحت بڑے پیمانے پر آگاہی کے لیے مہم بھی چلائے گا۔

گذشتہ سال بھارتی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں بیٹا ہونے کی خواہش کے باعث تقریباً چھ کروڑ تیس لاکھ خواتین عددی طور پر کم تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا: ’بیٹے کی پیدائش کے بارے میں پائے جانے والے رجحان پر بھارتی معاشرے کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔‘

بھارت کے پدرشاہی معاشرے میں بیٹوں کو خاندان کے کفیل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو بڑھاپے میں اپنے والدین کی خدمت کرتا ہے جبکہ بیٹیوں کی پرورش کو معاشی بوجھ سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کی شادی میں جہیز دینے کا دباؤ ہوتا ہے گو کہ جہیز پر بھارت میں 1961 سے پابندی عائد ہے۔

گذشتہ سال پولیس کو ایک کیس کی تفتیش کے دوران مہاراشٹرا کے ایک ہسپتال کے قریب اسقاط حمل کا شکار 19 غیر مولود بچیاں ملی تھیں۔ پولیس ایک خاتون کی موت کی تفتیش کر رہی تھی جو غیر قانونی اسقاط حمل کے عمل کے دوران چل بسی تھیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین