خواتین کے لیے مختص گلابی بس میں مرد کیوں بیٹھ رہے ہیں؟

مردان اور ایبٹ آباد میں خواتین کی سہولت کے لیے شروع کی گئی سکورہ بسوں میں اب بلاجھجھک مردوں کو بھی سوار کیا جاتا ہے۔

مانسہرہ میں خواتین کے لیے مخصوص پنک بس میں مرد بھی سوار ہیں(تصویر: حامد علی خان بنگش)

سکورہ پروجیکٹ کی 14 گلابی بسوں کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ خیبر پختونخوا کی خواتین کی نقل وحمل آسان بنائیں گی تاکہ وہ اپنے روزانہ کے سفر اور کام کاج کے لیے گھر کے کسی فرد کی محتاج نہ ہوں اور عوامی ویگنوں میں پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات سے بھی بچ سکیں، لیکن صرف چار مہینے کی مدت میں ہی ثابت ہوا کہ حقیقت ان دعوؤں کے بالکل برعکس ہے۔

شہریوں کی جانب سے شکایت موصول ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو نے مردان اور ایبٹ آباد دونوں شہروں میں اس خبر کی تحقیقات کیں۔ جس پر معلوم ہوا کہ دراصل دونوں ہی شہروں میں اب بلاجھجھک مردوں کو بھی پنک بس میں سوار کیا جاتا ہے۔

سکورہ  یعنی گلابی بس سروس کا انتظام سنبھالنے والی نجی  کمپنی ’ٹرانس پشاور‘ کے ترجمان نعمان منظور نے استفسار پر بتایا کہ ان کی کمپنی اس حوالے سے ایکشن لے گی اور ایسے ڈرائیوروں پر جرمانہ بھی عائد کرے گی کیونکہ انھوں نے اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔

نعمان منظور کا کہنا تھا: ’ہمیں ایک شکایت پہلے بھی موصول ہوئی تھی لیکن تب ہمیں ڈرائیور نے بتایا کہ آج کل تعلیمی اداروں کی چھٹیاں ہیں اس لیے وہ مردوں کو بھی سوار کر رہے ہیں تاکہ اخراجات پورے ہوں۔ دراصل اس سروس کے لیے حکومت نے کوئی سبسڈی نہیں رکھی ہے اور حال یہ ہے کہ جب خواتین سواریاں نہیں ہوتیں تو کافی نقصان ہوتا ہے۔ ‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نجی کمپنی کے اس بیان کے برعکس مردان کی ایک خاتون نجات بی بی کا کہنا ہے کہ اگر تعلیمی اداروں کی چھٹیاں ہوں تب بھی خواتین سواریوں کی کمی نہیں ہوتیں۔ مردان ایک بہت بڑا شہر ہے جہاں مختلف مقاصد کے لیے خواتین کو ہر دن اور ہر موسم میں گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’گلابی بس والوں کا یہ بیان انتہائی کمزور ہے کہ خواتین سواریاں نہیں ہوتیں اس لیے وہ مردوں کو  بٹھا دیتے ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ جب تعلیمی ادارے کھلے تھے تو ان بسوں میں بہت رش ہوتا تھا۔‘

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے گلابی بس کا آغاز  سب سے پہلے مردان سے ہوا تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کے دوران مردان کی خواتین کی خوشی دیدنی تھی۔ خوبصورت ایئرکنڈیشنڈ اور صاف ستھری بس میں خواتین ایک دوسرے سے گپ شپ میں مصروف تھیں اور جیسے ہی ان کی منزل قریب ہوتی، وہ ڈرائیور کو تیز آواز میں خبردار کر دیتیں۔

حقوق نسواں کی حامی ایک پشتون طالبہ نیلم فقیر نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’عوامی ویگنوں میں خواتین ماحول کے اثر سے اتنی دب جاتی ہیں کہ وہ ڈرائیور کو آواز تک نہیں دے سکتیں اور اکثر ڈرائیور کے بجائے قریب بیٹھے کسی مرد سے درخواست کرنا پڑتی ہے۔ ایسے حالات میں ڈری سہمی خواتین کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے کیونکہ وہ ہراسمنٹ کے باوجود کچھ بول نہیں پاتیں۔‘

گلابی بس کا بنیادی آئیڈیا خیبر پختونخوا حکومت اور اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے برائے ٹرانسپورٹ آپریشنز کا ایک مشترکہ منصوبہ تھا، جس کو عملی جامہ پہناتے ہوئے جاپان کی حکومت نے 14 بسیں تحفے کے طور پر دینے کا اعلان کیا تھا۔

پشاور میں اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کے آپریشنز آفیسر واجد اللہ سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے استفسار کیا کہ جس مقصد کے لیے یہ منصوبہ لانچ کیا گیا تھا، اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ ’وہ بہت جلد اس خبر کی تحقیق کریں گے۔‘

واجد اللہ نے مزید بتایا کہ یہ منصوبہ سماجی بہبود کو مد نظر رکھ کر متعارف کیا گیا تھا، لیکن آخر میں یہ پروجیکٹ اس لیے نجی کمپنی کو دینا پڑا کیونکہ اس کو سرکاری خرچے سے چلانا مشکل تھا۔

انہوں نے کہا: ’اہم بات یہ ہے کہ یہ پائلٹ منصوبہ ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوا تو اس کو دوسرے اضلاع میں بھی متعارف کیا جائےگا۔‘

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے سماجی بہبود کے جذبے کے طور پر اس صوبے کی خواتین کو ریلیف دینے، انھیں ہراساں ہونے سے محفوظ رکھنے اور خود مختار بنانے کے لیے شروع کیا تھا، لیکن بعد میں حکومت کو یاد آیا کہ وہ اس کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہے، لہذا اس کا حل یہ سوچا گیا کہ یہ بسیں کسی پرائیویٹ کمپنی کو دے دی جائیں، جو وقتاً فوقتاً منافع کمانے کے چکر میں اصولوں کی خلاف ورزی کرتے رہے گی۔

دوسری جانب اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس صوبے کی خواتین کو اس مخصوص بس کی اشد ضرورت ہے۔ اب فیصلہ حکومت کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس مد میں کیا کر سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین