سکھر: ’ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ روزانہ نہانے جاتے تھے‘

سکھر کے چھ بچے دریا میں ڈوب گئے یا کہیں اور لاپتہ ہو گئے ہیں لیکن انتظامیہ تاحال بچوں کا سراغ لگا نہیں سکی ہے۔

جس طرح اسلام آباد اور راولپنڈی جڑواں شہر ہیں بالکل اسی طرح سندھ کے سکھر اور روہڑی بھی جڑواں ہیں۔ دونوں کے بیچوں بیچ بہنے والا دریائے سندھ ان کو الگ کرتا ہے۔ دونوں شہروں کی آبادی دریا کے ساتھ ساتھ بسی ہے۔ دریا کے بیچ میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے اور دریا کے اس پار سکھر میں بندر روڈ نامی سڑک شہر اور دریا کے درمیان ایک بارڈر کی طرح بچھی ہے۔ اس سڑک کی ایک طرف دریا اور دوسری جانب سکھر شہر بسا ہے۔

چند سال پہلے بندر روڈ کے متوازی بالکل دریا کے پتلی لائن جیسے کنارے ایک بڑی آبادی بستی تھی۔ محمد ریاض بھی اس بستی میں کئی سالوں سے مقیم تھے۔ ان کا بڑا بیٹا محمد انس بھی اسی بستی میں پیدا ہوا اور بچپن ہی سے ہر صبح دریا بادشاہ کو آب و تاب سے گھر کے برابر بہتے دیکھتا تھا۔

بہتے پانی کے باعث سکھر کی جگ مشہور گرمی میں بھی بستی قدر ٹھنڈی رہتی تھی۔ زندگی پرسکون تھی۔ مگر اچانک 2011 میں مقامی حکومت نے تجاوزات کا کہہ کر آپریشن کرکے بستی کو مسمار کر دیا۔

آج بھی دریا کے کنارے محمد ریاض وہاں سے ایک کرائے کے مکان میں منتقل ہوگئے۔ چند سالوں میں دو تین مکان تبدیل کیے مگر بلا آخر بندر روڈ سے متصل کوئینز روڈ پر واقع حماد پلازہ منتقل ہوگئے۔ اس پلازہ میں رہائش کے دوران محمد ریاض کے بڑے بیٹے محمد انس کے کئی ہم عمر پڑوسی دوست بن گئے تھے۔ یہ سب دوست شام کو اپنے رہائشی پلازہ کے سامنے موجود ایک بڑے میدان میں کرکٹ کھیلتے تھے۔  

رینٹ کی گاڑی چلانے کا کام کرنے والے محمد ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'انس میرا بیٹا ہونے کے ساتھ ایک اچھا دوست بھی تھا مگر انھوں نے کبھی بھی مجھے نہیں بتایا کہ شام کی کرکٹ کے بعد وہ سب دوست دریا پر نہانے جاتے تھے۔ میں انس کو ہر جگہ ساتھ لے جاتا تھا ان کو زندگی کی باتیں بتاتا تھا۔ مگر بھر جانے کیا ہوا انس کہاں چلا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انس ان چھ بچوں میں سے ایک تھا جو جمعہ 19 جولائی سے لاپتہ ہیں۔ ان کا تاحال پتہ نہ چل سکا جو ان کے والدین کے لیے قیامت سے کم نہیں۔

ساتویں جماعت کے طالب علم انس کرکٹ سے زیادہ کمپیوٹر گیمز میں دلچسپی رکھتے تھے۔

انس کے دو دوست 15 سالہ محمد قاسم  اور ان کے چھوٹے بھائی 11 سالہ محمد عاصم بھی لاپتہ ہونے والے بچوں میں شامل ہیں۔ دونوں بھائیوں کے والد نبی نور قمر غم سے اتنے نڈھال ہیں کہ بات نہیں کر پاتے۔

دونوں بچوں کے ماموں عمران شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نبی نور قمر کی دُکان کے سامنے ہی کرکٹ کا میدان ہے جہاں بچے کھیلتے ہیں۔ وہ دکان سے بچوں کو کھیلتے دیکھتے رہتے تھے۔

ان کے بقول: ’نبی نور قمر کا پرنٹنگ کا کام ہے جہاں ان کا بڑا بیٹا محمد قاسم کمپوزنگ سیکھتے تھے۔ وہ تو کرکٹ بھی نہیں کھیلتے کیونکہ کام سے واپسی تک رات کے نو بج جاتے تطے۔ جبکہ چھوٹا بیٹا عاصم کرکٹ کھیلتا تھا۔ ہمیں یہ پتا تھا کہ بچے کبھی جمعہ کو دریا پر نہانے چلے جاتے ہیں مگر یہ بالکل بھی نہیں پتا تھا کہ وہ روزانہ دریا پر نہانے جاتے ہیں۔‘

بعد میں انتظامیہ کو سی سی ٹی وی فوٹیج ملی جس میں بچوں کو اس تیزی سے دریا کی جانب جاتے دیکھا گیا جیسے کوئی انھیں بلا رہا ہو۔

لاپتہ ہونے والوں میں انس، قاسم اور عاصم کے ساتھ انیس الرحمان انصاری کے تین بیٹے 16 سالہ حماد الرحمان انصاری، 12 سالہ افتام الرحمان اور 11 سالہ احتشام بھی شامل ہیں۔

والدین نے اپنے بچوں کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوائی۔ انتظامیہ بضد ہے کہ بچے نہاتے ہوئے ڈوب گئے مگر انتظامیہ کسی بھی بچے کی لاش تلاش نہ کرسکی ہے۔

22 جولائی کو پولیس نے والدین کو اطلاع دی کہ ایک بچے کی لاش لاڑکانہ کے گاؤں ٹگر شیخ میں دریا کنارے سے ملی ہے۔ سب والدین لاش کی شناخت کے لیے پہنچے۔ لاش گل سڑ چکی تھی، چہرہ شناخت کے قابل نہیں تھا۔ جسم کو مچھلیوں نے نوچ لیا تھا صرف پاؤں سلامت تھے۔

تین بچوں کے والد انیس الرحمان نے لاش کے پاؤں سے شناخت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے بیٹے احتشام کی لاش ہے۔ مگر بعد میں انھوں نے کہا یہ لاش کسی بڑے بچے کی ہے۔ مگر پولیس انتظامیہ بضد تھی کہ یہ ان کے بیٹے ہی کی لاش ہے۔

پریشان والد نے پولیس کے دعویٰ پر اعتراض کرتے ہوئے لاش کے ڈی این اے کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ جس میں انھوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ ملنے والی لاش میرے بچے کی نہیں ہے، ڈی این اے کرایا جائے۔

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر سکھر غلام مرتضیٰ شیخ نے بدھ کو ایک اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے ایگزیکیوٹیو انجنیئر سکھر بیراج کو ہدایت کی کہ جہاں سے بچے ڈوب گئے ہیں وہاں کھلے حصے کو بند کروایا جائے یا دروازہ لگوایا جائے اور بچوں کو نہانے کے لیے دریائے سندھ کی طرف بڑھنے نہ دیا جائے۔ انھوں نے پولیس کو بھی ہدایت کی کہ دریائے سندھ اور کینالوں میں تیرنے پر لگی پابندی پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے تاکہ مزید انسانی جانیں ضائع نہ ہوسکیں۔

سکھر کے چھ بچے دریا میں ڈوب گئے یا لاپتہ ہو گئے ہیں لیکن انتظامیہ تاحال بچوں کا سراغ لگا نہیں سکی ہے۔ اس بےیقینی کی صورتحال میں والدین کا درد محسوس کرنا آسان نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان