گیم از فکسڈ؟ احتساب سے متعلق تاثر درست کرنے کی ذمہ داری

یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائے کہ احتساب کیسز کے پیچھے حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا تاثر زائل ہو سکے۔

اس دن کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص حیرت میں مبتلا تھا کہ حلیم طبیعت کے مالک زرداری صاحب آج اتنے غصے میں کیوں ہیں؟(اے ایف پی)

یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا کمرہ عدالت نمبر 2 ہے۔ 26 جون کی دوپہر ایک بجے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے لیے اپنی نشستوں پر براجمان ہیں۔ ان کے سامنے نامزد ملزم سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اپنے وکیل فاروق ایچ نائیک اور پارٹی قیادت کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ وہ اپنے ساتھ نشست پر بیٹھی رخسانہ بنگش کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد عدالتی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے تو آصف علی زرداری ججز سے یوں مخاطب ہوتے ہیں۔۔

”I know my lawyers are competent but I want to address myself”

جسٹس عامر فاروق عموماٍ وکیل کی موجودگی میں موکل کو بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن انہوں نے زرداری صاحب کو خود بات کرنے کی اجازت دے دی جس کے بعد وہ روسٹرم پر آ کر یوں مخاطب ہوئے۔

’نیب نے دعوٰی کیا کہ میں نے پارک لین خریدی، کوئی دستاویزات نہیں کہ بطور ڈائریکٹر میں نے کوئی دستخط کیے ہوں۔ پہلے بھی سات کیسز میں مجھے ملزم بنایا گیا، پھر ایک اور بی ایم ڈبلیو کا کیس بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ توشہ خانہ کیس میں بھی میں نے ڈیوٹیز دی ہیں۔ استغاثہ کہتی ہے میں نے کمپنی بنائی، کمپنی بنانے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا لیکن میرے قرضہ لینے کا کوئی ثبوت نہیں۔ میرے خلاف جعلی کیسز بنائے گئے ہیں، مجھے معلوم ہے میں یہاں کیوں کھڑا ہوں۔ میں یہ اونچ نیچ پہلے بھی دیکھ چکا ہوں، اگر میری ضمانت ہو بھی گئی تو نیب مجھے کسی اور کیس میں گرفتار کر لے گا۔ میں اپنی ضمانت کے تمام کیسز واپس لیتا ہوں، میں کسی کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ یہ گیم کا حصہ ہے اور گیم فِکس ہو چکی ہے۔‘

جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کن کن کیسز میں آصف زرداری کے وارنٹ ہیں؟ نیب پراسیکوٹر نے بتایا کہ پارک لین میں وارنٹ ہیں باقی دو کیسز میں نہیں ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواستیں واپس لیے جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے زرداری کی استدعا حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے منظور کر لی۔

کیس کی سماعت شروع ہونے سے قبل جب تمام صحافی، نیب کی ٹیم اور آصف علی زرداری اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھے تو اچانک مختلف ذرائع سے خبریں آنے لگیں کہ بلاول بھٹو اپنے والد سے ملاقات کے لیے ہائی کورٹ آ رہے ہیں حالانکہ یہ ملاقات شیڈول میں نہیں تھی۔ صرف 10 منٹ کے توقف سے بلاول بھٹو پہنچ گئے اور مختصر ملاقات کے بعد جب وہاں سے روانہ ہونے لگے تو میں نے بلاول بھٹو سے کہا کہ کیا آپ اے پی سی میں شرکت کریں گے تو انہوں نے تصدیق کی کہ اے پی سی کے اجلاس میں ہی جا رہا ہوں۔ حالانکہ 25 جون رات گئے تک پیپلز پارٹی کا جو وفد اے پی سی میں شرکت کر رہا تھا بلاول اس میں شامل نہیں تھے۔ آصف علی زرداری کے احتساب کیسز میں نیا رخ اور اے پی سی میں بلاول کی شرکت اور حکومت کے خلاف اے پی سی میں پیپلز پارٹی کا موقف شاید اسی ملاقات کا نتیجہ تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دن کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص حیرت میں مبتلا تھا کہ حلیم طبیعت کے مالک زرداری صاحب آج اتنے غصے میں کیوں ہیں؟ انہوں نے بلاول کو بلا کر اے پی سی میں جانے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ اس کے بعد کا لائحہ عمل بھی بتا دیا۔ اب تک اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں کہ انہوں نے احتساب کیسز میں حکومت کے خلاف کیا موقف اختیار کرنا ہے۔

موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کو قریب لانے میں حکومت کا کردار سب سے اہم ہے۔

وزراء کے اپوزیشن رہنماؤں کے مقدمات پر جارحانہ بیانات احتساب عمل کو مزید متنازع بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم کو اس کا نوٹس لینا چاہیے، اگر فوری ایسے اقدامات نہ کئے گئے تو اپوزیشن جماعتوں کے اس بیانیےکو مزید تقویت ملے گی جس کے مطابق حکومتی وزراء ایسی بیان بازی وزیراعظم کی خصوصی ہدایات پر کرتے ہیں اور بعد میں وہاں سے داد بھی وصول کرتے ہیں جو کہ بہر حال ایک اچھا تاثر نہیں ہوگا۔ اب تک اسی تاثرکی بدولت اپوزیشن رہنماؤں کے دل سے گرفتاری کا خوف نکلتا جا رہا ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے اپنی ضمانت کی درخواستیں واپس لینا اور کمرہ عدالت میں یہ کہنا کہ اگر اس کیس میں میری ضمانت ہو بھی جائے تو نیب مجھے کسی اور کیس میں گرفتار کر لے گا، شہباز شریف کا عبوری ضمانت کے بغیر نیب میں پیش ہونا، احسن اقبال  کا یہ کہنا کہ میں اپنا بیگ تیار کر کے بیٹھا ہوں جب چاہیں گرفتار کر لیں۔ وزراء اگر پریس کانفرنس اور ٹاک شوز میں بیٹھ کر اگلی گرفتاریوں کی پیش گوئیاں کریں گے تو اپوزیشن رہنماؤں کو یہی پیغام جائے گا کہ چاہے وہ ضمانت کرائیں یا نہ کرائیں انہیں جیل یاترا ہی کرنا پڑے گی۔

یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائے کہ احتساب کیسز کے پیچھے حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا تاثر زائل ہو سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ