سینسرشپ کے خلاف ماضی جیسی مزاحمت کیوں نہیں؟

یہ حقیقت ہے کہ آج کا ماحول زیادہ گھٹن زدہ اور مایوس کن ہے۔ لیکن اس سے زیادہ غور طلب یہ بات ہے کہ آج ہم صحافی ماضی کی طرح کی مزاحمت کرنے سے قاصر  کیوں ہیں؟

یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ نے اپنا ٹی وی  شروع نہیں کیا تھا یہاں تک کہ ان کا مشہورانگریزی روزنامہ بھی چھپنا شروع نہیں ہوا تھا۔

اسی زمانے میں ایک مشہور روزنامے کے چیف ایڈیٹر نے پاکستان کی ’وال اسٹریٹ‘ یعنی آئی آئی چندریگرروڈ پر واقع اپنے اخبار کے دفتر میں ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ یہ وہی ایڈیٹر ہیں جو کہ اخبار کے مالک بھی تھے۔ تو جناب چیف ایڈیٹر صاحب رپورٹرز کو کھری کھری سنا رہے تھے کہ کافی دن سے اخبار میں کوئی بڑی خبر نہیں لگ رہی۔

سخت مقابلے کا ماحول تھا۔ اخبار کی شہ سرخیاں ہی تو سب کچھ تھیں۔ اگر اخبار بڑی سرخی یعنی بڑی خبر نہ نکال پائے تو سیدھا اثر اخبار کی سرکولیشن پر پڑنے کا خدشہ رہتا تھا۔

غصے میں تلملائے ہوئے چیف ایڈیٹر نے اجلاس برخاست کیا۔ ادھر رپورٹر حضرات نے اپنے اپنے ذرائع کو فون کھڑکانا شروع کیے، بعض رپورٹرز جو ایڈیٹر کی باتیں زیادہ ہی دل پر لے گئے انہوں نے اگلے دن ملاقاتیں بھی طے کر لیں۔

جب نیوز روم میں سب رپورٹرز خبر نکالنے کے لیے پریشاں نظر آئے  وہیں ایک سینئر رپورٹر ایسا بھی تھا جنہوں نے چائے منگوا کر پی، سگریٹ کا کش لیا اور سکون سے اپنے گھر کی طرف چل دیئے۔ اگلے دن سب ’استطاعت‘ کے مطابق خبریں لے آئے لیکن دھماکے دار خبر تو اس سینیئر رپورٹر کے پاس تھی۔ اگلے دن اس کی خبر شہ سرخیوں میں تھی اور کئی ہفتوں تک شہر کے  کورٹ اور کرائم رپورٹرز بعد میں اس پر فالو اپ خبریں دیتے رہے۔

یہ دھماکہ خیز خبر کیا تھی اور کیسے تخلیق کی گئی؟ یہ بات راز ہی رہتی اگر کچھ عرصے بعد موصوف خود ہی ساتھی رپورٹرز کو یہ سب کچھ نہ بتاتے۔

ہوا کچھ یوں کہ میٹنگ والے دن موصوف سیدھا گھر چل دیئے۔ اگلے دن صبح ناشتہ کرکے نیپئر روڈ پہنچے، کچھ رقم کے عوض ایک خاتون کو ساتھ لیا اور سیدھا مجسٹریٹ کی عدالت پہنچے، دفتر کے فوٹوگرافر کو پہلے ہی عدالت کے باہر کھڑا کر رکھا تھا۔ جان پہچان کے ایک وکیل کو پہلے ہی لائن اپ کر رکھا تھا۔ یوں کھچڑی پکی اور درخواست دائر ہوگئی ’سگے بیٹے نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے انصاف دلایا جائے۔‘

سینیئر رپورٹر کو حسب ضرورت سرخی مل چکی تھی سو خاتون کو رکشے میں بٹھا کر نیپئر روڈ روانہ کیا اور خود دہکتی سلگتی سرخی کے ساتھ دفتر پہنچ گئے۔ قارئین کو یہ قصہ کبھی نہ سناتا اگر ہمارے صحافتی پیشے میں ایسے رنگ بازوں کے دن لدھ گئے ہوتے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینکڑوں صحافیوں میں پہلے چند ایک ہی کالی بھیڑیں ہوتی تھیں مگر اب ہر تیسرا چوتھا نام کا صحافی اس مقدس پیشے کے لیے بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔ پہلے پیسے کی اتنی طلب تھی نہ کروڑوں کمانے کی خواہش! مرید عباس کیس اس کی ایک مثال ہے۔ کیس کے تفتیشی افسر نے نیب میں کیس بھیجنے کے لیے لکھے گئے خط میں انکشاف کیا ہے کہ کم از کم ایک ارب روپے کا معاملہ تھا جس میں سو سے زائد لوگ ملوث ہیں۔ اکثریت میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ مرید عباس کی ایک سرمایہ کار سے گفتگو کی ریکارڈنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم کو آگاہی تھی کہ کاروبار غیرقانونی طریقے سے کیا جا رہا ہے۔

 دولت و طاقت کے پیچھے بھاگتے صحافیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جعلی پولیس مقابلوں کے لیے مشہور راو انوار کی سنڈیکٹ میں شامل صحافیوں پر باہر جائیداد بنانے کا الزام ہے۔ مختلف بیٹس کے صحافیوں سے مل کر پتہ چلتا ہے کہ صحافت سے زیادہ دھندہ چلتا ہے۔ خبریں اخبارات کے دفاتر پہنچتی ہی نہیں اس سے پہلے لین دین ہوجاتا ہے۔

الیکٹرونک میڈیا کے کئی بڑے ناموں کے سکرپٹ سن کر پتہ چلتا ہے کہ مسودہ معاوضہ دینے والے کی طرف سے ہی بھیجا گیا ہے۔

صحافتی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ پہلے مہینوں میں ایک خبر باونس ہو جاتی تھی تو متعلقہ رپورٹر کئی ہفتوں تک اپنے شہر کے پریس کلب کا رخ نہیں کرتا تھا کہ کس منہ سے ساتھیوں کا سامنا کرے گا۔ اب تو پوری کی پوری ٹرانسمیشن باونس ہو جاتی ہے، کوئی شرم نہ حیا۔ وٹس ایپ سے ملنے والی خبر کی زبان تک تبدیل کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی، جو ملا فارورڈ کر دیا۔

الفاظ سے تصویر طاقتور ہوتی ہے اور تصویر سے زیادہ پراثر ویڈیو ہوتی ہے۔ اب ٹی وی کا میڈیا زیادہ طاقتور ہے اور اس طرح وہاں صورتحال بھی زیادہ خراب ہے۔

آج کل سینسرشپ کا چرچا ہے مگر اس کی ابتداء تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہوگئی تھی اس لیے پاکستانی صحافیوں کے  لیے کوئی نئی بات ہے ہی نہیں۔ ہمارے سینیئرز نے ایوب خان کا دور بھی دیکھا اور بھٹو کی سینسرشپ بھی جھیلی ہے، ضیاء الحق کے کوڑے بھی کھائے اور وہ وقت بھی دیکھا جب نواز شریف کے دور میں ملک کا سب سے بڑا اخبار سکڑ کر چار صفحے کا رہ گیا تھا۔ یہ آنکھیں گواہ ہیں جب جنرل مشرف کے دور میں کراچی پریس کلب کے سامنے ڈھائی سو صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ آج تقریباً سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ دور سینسرشپ کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کا بدترین دور ہے۔ حکمران جماعت کے آفشل ٹویٹر آئی ڈی سے صحافت پر جو بھاشن دیے جا رہے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کے ارادے نیک نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ آج کا ماحول زیادہ گھٹن زدہ اور مایوس کن ہے۔ لیکن اس سے زیادہ غور طلب یہ بات ہے کہ آج ہم صحافی ماضی کی طرح کی مزاحمت کرنے سے قاصر  کیوں ہیں؟ اس کی وجہ صحافیوں کی تقسیم بتائی جاتی ہے۔ صحافیوں میں تقسیم تو بہت پہلے شروع ہوچکی تھی۔ اب صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جنرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے دو سے تین دھڑے بن چکے ہیں تاہم جو پہلے کبھی ساتھ بیٹھتے تک نہیں تھے انہوں نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی سطح پر جوائنٹ ایکشن کمیٹیاں بنائی ہیں اور مظاہرے کیے ہیں۔ اس کے باوجود ہم سینسرشپ کی بھرپور مزاحمت نہیں کر پا رہے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ آج کے صحافی کے پاس وہ کردار ہی نہیں رہا جو مزاحمت کے لیے درکار ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیوں نہ کھروں کو کھوٹوں سے الگ کیا جائے؟ پھر کیوں نہ اپنی اصلاح کی مہم چلا کر خود کو مضبوط کریں۔ کیوں نہ دوسروں کی جوابدہی کے اپنے فریضے سے قبل خود کو دوسروں کے سامنے جوابدہ بنائیں۔ کیوں نہ ہم خود کو احتساب کے لیے پیش کریں اور اپنے ان سینیئرز کی طرح بن جائیں جو ہر قسم کی جبر، ظلم اور سینسرشپ کے مقابلے میں سرخرو ہوتے رہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ