پاکستان: یرقان ختم کرنے کے لیے 4 ارب ڈالرز درکار

پاکستان میں یرقان کے ایک کروڑ 20 لاکھ مریض ہیں جبکہ سالانہ ڈیڑھ لاکھ نئے کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔

ستمبر، 2010 میں لی گئی اس تصویر میں سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقے کندھ کوٹ میں ایک بچے کو ہیپاٹائٹس ویکسین دی جا رہی ہے (اے ایف پی)

پانچ بچوں کی ماں نور بی بی کراچی کی مچھر کالونی کے بنگالی محلے میں رہتی ہیں۔ مچھر کالونی آبادی کے لحاظ سے شہر کی بڑی کچی آبادیوں میں شمار کی جاتی ہے اور کراچی کی بندرگاہ سے متصل، ماڑی پور روڈ کے ساتھ پھیلی ہوئی لیاری ٹاؤن کی اس کالونی کی آبادی ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ ہے ۔

کچھ عرصہ پہلے نور بی بی جب پیٹ میں درد کی تکلیف پر کالونی کے نجی ہسپتال پہنچیں تو ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ تجویز کی، جن کے نتائج میں ان کو ہیپاٹائٹس سی یا کالا یرقان تشخیص کیا گیا۔

نور بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا 'ڈاکٹر نے کہا اس کا علاج بہت مہنگا ہے اور بہت کم سرکاری ہسپتالوں میں اس کا علاج ہوتا ہے۔ میں جب ایک سرکاری ہسپتال گئی تو انھوں نے قومی شناختی کارڈ مانگا جو میرے پاس نہیں ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا شناختی کارڈ کے بغیر علاج نہیں ہوگا تو میں واپس آگئی۔ مگر بعد میں میرے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ مچھر کالونی میں ایک ایسا ہسپتال بھی ہے جو مفت علاج کرتا ہے تو میں یہاں آگئی اور اب ادھر میرا علاج ہو رہا ہے۔'

نور بی بی کے بقول سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ان کو بتایا کہ کچھ ہسپتالوں نے مریضوں کے نام پر محکمہ صحت سے اضافی ادویات لیں تب سے حکومت نے شرط عائد کی کہ کالے یرقان کے علاج کے لیے آنے والے ہر مریض سے قومی شناختی کارڈ کی کاپی لی جائے گی۔

نوربی بی نے کہا: 'میرا تعلق بنگالی کمیونٹی سے ہے اور پچھلے کچھ سال سے نادرا نے بنگالیوں کے شناختی کارڈ بنانا بند کر دیے ہیں۔ میں اپنی ساس اور سسر کا پُرانا شناختی کارڈ، نکاح نامہ اور دیگر کاغذات لے گئی تو انہوں نے گھر کے کاغذات مانگے مگر ہمارے پاس تو اپنا گھر ہی نہیں۔'

 نور بی بی نے بتایا کہ شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتیں۔ ان کے نوجوان بیٹے کو کوئی کام پر نہیں رکھتا اور تو اور وہ سرکاری ہسپتال سے علاج تک نہیں کرا سکتیں۔  

بین الاقوامی فلاحی تنظیم میڈیسن سان فرنٹیئرز (ایم ایس ایف)  کے ڈاکٹر خاور اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہم ہر آنے مریض کا بغیر شناختی کارڈ طلب کیے بغیر مفت علاج کرتے ہیں۔ ان کی تنظیم کراچی کی مچھر کالونی میں 2015 سے مفت ہسپتال چلا رہی ہے۔‘

'ہم نے مچھر کالونی میں ہیپاٹائٹس کی تشخیص کے ٹیسٹ کیے جس سے پتہ چلا کہ ڈیڑھ لاکھ والی اس کالونی کی 30 سے 25 فیصد آبادی ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہے یا پھر آسان زبان میں  کہا جائے تو اس کالونی میں ہر تیسرا یا چوتھا فرد ہیپاٹائٹس کا مریض ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نور بی بی کی طرح بنگالی اور بہاری زبان بولنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کراچی میں آباد ہے۔ ان کی بستی مچھر کالونی میں بھی بنگالی، بہاری اور پشتو بولنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے، جن میں اکثریت کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں اور وہ سرکاری ہسپتال سے علاج کروانے سے قاصر ہیں۔

ڈاکٹر خاور اسلم کے مطابق 2015 تک اس مرض کو یا تو لاعلاج یا پھر بہت مہنگے اور طویل عرصے تک جاری رہنے والے علاج سے ٹھیک ہونے والا مرض سمجھا جاتا تھا۔ اُس وقت اس بیماری کا علاج صرف ایک ٹیکہ تھا مگر بعد میں کھائی جانے والی ادویات کی صورت میں علاج متعارف کرایا گیا۔

'اب تو اس مرغ کا علاج بالکل آسان ہے، کوئی بھی جسے ہیپاٹائٹس ہے وہ صرف تین ماہ تک کھانے والی ادویات لے اور اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرلے۔'

ماہرین صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس کی چھہ اقسام ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای۔ عام زبان میں ہیپاٹائٹس کو یرقان کہا جاتا ہے جبکہ ہیپاٹائٹس اے کو پیلا یرقان اور ہیپاٹائٹس بی اور سی کو کالا یرقان کہتے ہیں۔

آج عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس کا دن منایا جارہا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے اس مرض سے ہر سال دنیا بھر میں ہونے والی دو کروڑ 60 لاکھ اموات کو روکنے اور  ہیپاٹائٹس کے مکمل خاتمے کے لیے 2030 تک کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔

ڈاکٹر خاور اسلم کے مطابق چین اور مصر کے بعد پاکستان دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد کے حساب سے تیسرے نمبر پر ہے۔   

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں اس وقت ہیپاٹائٹس بی اور سی یعنی کالے یرقان کے ایک کروڑ بیس لاکھ مریض ہیں اور ہر سال ڈیڑھ لاکھ نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔

 ڈاکٹر خاور اسلم کے مطابق اگر پاکستان مرض پر قابو پانے کے لیے عالمی ادارہ صحت کا ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے چار ارب امریکی ڈالرز درکار ہوں گے۔

ہیپاٹائٹس یا یرقان بنیادی طور پر بچوں کی بیماری ہے مگر یہ بیماری وائرس سے پھیلتی ہے تو کسی بھی فرد کو کسی بھی عمر میں متاثر کر سکتی ہے۔

 پیلا یرقان یا ہیپاٹائٹس اے، ڈی اور ای کم شدت اور کم پیچدگی والا مرض سمجھا جاتا ہے اور آسانی سے ٹھیک ہو جاتا ہے جبکہ ہیپاٹائٹس بی اور سی یعنی کالا یرقان انتہائی پیچیدہ اور جان لیوا ہوسکتا ہے۔

ماہرین صحت کے مطابق، یرقان سے متاثر مریض کے ساتھ کھانا کھانے، ہاتھ ملانے یا ساتھ رہنے سے نہیں پھیلتا۔ اس مرض کا وائرس متاثرہ مریض کے خون اور مختلف قسم کے جسمانی مائع کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔

یہ وائرس انسان کے جگر کو متاثر کرتا ہے اور علاج نہ ہونے کی صورت میں جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔

یہ مرض استعمال شدہ سرنج، آلودہ جرحی آلات، کان یا ناک چھیدنے والے آلات یا آلودہ بلیڈ سے ختنہ کروانے سے ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ غیر محفوظ جنسی تعلقات سے بھی وائرس متاثرہ مریض سے صحت مند انسان میں منتقل ہوسکتا ہے۔ اگر کسی عورت کو امید ہونے پر یہ مرض لاحق ہو تو نامولود کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔

پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی کی سستی اور محفوظ ویکسین بھی موجود ہے اور کوئی بھی فرد یہ ویکسین لگوا کر خود کو اس مرض سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

پاکستان میں سرکاری طور پر اس مرض کا علاج بالکل مفت ہے اور سرکاری مراکز پر بچوں کی ویکسین بھی مفت کی جاتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت