شوہر کے نام پہ ’لائسنس ٹو ہِٹ‘

کوئی ایسا مائی کا لعل نہیں اٹھے گا جو شوہر کے نام پہ ’لائسنس ٹو ہِٹ‘ رکھنے والے کا گریبان پکڑ کے پوچھ سکے کہ کس مذہب، معاشرے، اخلاق نے ایک عورت پہ ہاتھ اٹھانے کا حق دیا؟

انسان نما شوہر جو خود کو جسم کا مالک سمجھتے ہیں لیکن جذبات کا ساتھ دینا اپنی توہین گردانتے ہیں   (تصویر: پکسا بے)

پلیٹ ہوا میں اُڑتے ہوئے دیوار سے جا ٹکرائی، ’یہ کھانا بنایا ہے اپنی شکل جیسا؟ نہ جانے کون سی گھڑی تھی جب تم جیسی عورت کو اپنے پلے باندھنے پہ راضی ہوگیا تھا‘، وہ زور سے چلایا۔

’ کیا کر رہے ہیں؟ کیوں تماشا بنارہے ہیں، کھانا روز جیسا ہی تو بنا ہے‘، اس کی لرزتی ہوئی آواز آئی۔

’زبان چلاتی ہے، اپنے شوہر کے سامنے۔‘ چٹاخ کی آواز آئی اور جیون ساتھی کے نام پہ زندگی بھر ساتھ چلنے والی اُس عورت کے سارے مان، غرور، قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کے ارمان آنسوؤں کے ساتھ بہا لے گئی لیکن غصے کی چنگھاڑ پھر بھی نہ تھمی۔

’تھکے ہارے گھر آؤ تو ڈھنگ سے کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا‘، بڑبڑاتے شوہر نے زور سے پھر کچھ پٹخا۔

سامنے کے فلیٹ سے آتی یہ اونچی اونچی آوازیں روز کا معمول بن گئی تھیں۔ جب بھی یہ میاں بیوی گھر پہ ہوتے اسی قسم کا شور اور ہنگامہ سنائی دیتا۔ کبھی کھانے کے نام پہ، کبھی خرچے کے مسئلے پہ، کبھی جھوٹی اناؤں کے بت ٹوٹنے کے خوف میں، آوازیں تیز ہوتیں، سسکیاں بلند ہوتیں، برتن ٹوٹتے اور پھر سناٹا چھا جاتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 یہ صرف ایک گھرانے کی کہانی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا وہ کڑوا سچ ہے، جسے اس لیے دبا دیا جاتا ہے کیونکہ اس کا کسیلا پن سننے والوں سے برداشت نہیں ہوتا۔ برداشت کرو، گھر بسانے کے لیے سمجھوتہ کرلو، اور کچھ نہیں تو بچوں کا مستقبل بنانے کے لیے اپنے حال کو بدحال بنانے والے کا کچا چٹھا نہ کھولو، کل کو اس نے چھوڑ دیا تو کہاں جاؤ گی، پہاڑ جیسی زندگی بغیر مرد کے کیسے گزارو گی، آئے ہائے کیوں اپنے مقدر کو لات مارنے پہ تلی ہوئی ہو۔ ایسے مشورے، طعنے، زیرِ لب مسکراہٹوں کے ساتھ زندگی کا مذاق بنانے والے ہر کونے کھدرے سے نکل کر سامنے آئیں گے، لیکن کوئی ایسا مائی کا لعل نہیں اٹھے گا جو شوہر کے نام پہ ’لائسنس ٹو ہِٹ‘ رکھنے والے کا گریبان پکڑ کے پوچھ سکے کہ کس مذہب، معاشرے، اخلاق نے ایک عورت پہ ہاتھ اٹھانے کا حق دیا؟

ماحول بناتا ہے ذہنیت برسوں، ہاتھ ایک دم گالوں پہ نشاں نہیں چھوڑتا!

اس انجام کا آغاز اُس پرورش سے ہوتا ہے جہاں بچیوں سے کہا جاتا ہے، ایسے نہ بیٹھو، دوپٹہ سر پہ لو، زور سے نہ ہنسو، بھائی سے نہ الجھو، کزن سے فری مت ہو، پھر وہی بچی سرخ جوڑے میں یہ سمجھ کر بیاہ دی جاتی ہے کہ رانی بیٹی راج کرے گی، لیکن یہ کسی کو یاد نہیں رہتا کہ جس ماحول میں اپنی بیٹی کو پالا پوسا ہے، دوسرے گھر میں بھی اگر یہی معمول رہا ہوگا تو نتیجہ کیا نکلے گا۔

نتیجتاً رانی بیٹی راج نہیں کرتی بلکہ راج مزدور بن جاتی ہے، ساس کی تیوری کے بل ہٹانے کے لیے ’جی ہاں، بالکل، کوئی غلطی ہوئی تو معاف کردیجیے، آئندہ ایسا نہیں ہوگا‘ کا مصالحہ لگاتے لگاتے اپنے رشتے میں اعتماد کا سیمنٹ لگانے والی مستری بن جاتی ہے اور طعنوں، تشنوں، گالیوں، احسان جتانے والے رویوں کو سہتے سہتے اپنی لائف کو مسٹری بنا چھوڑتی ہے۔

پھر رویے روح کو برباد کرنا شروع کر دیتے ہیں، انسان نما شوہر جو خود کو جسم کا مالک سمجھتے ہیں لیکن جذبات کا ساتھ دینا اپنی توہین گردانتے ہیں۔ ساس اور نند سے دبی آواز میں خود پہ گزری سنانے کی کوشش کی جائے تو وہ کہتے ہیں: ’بھئی ہم میاں بیوی کے معاملے میں بولنے کے قائل نہیں، اپنے مسائل خود نمٹاؤ۔‘

لیکن جہاں بیٹا اور بھائی کمزور پڑنے لگے وہیں بہو کی چٹیا کھینچنے میں سب سے آگے پھر یہی ہوتی ہیں۔ پھر پہلا تھپڑ، پھر گھونسہ، پھر گالیاں، لعنت ملامت، آواز نکلنے کی صورت میں گلے میں ہی آواز گھونٹے کی دھمکی، طلاق دے کر گھر سے در بدر کرنے کی دھونس۔ پھر یہی رانی بیٹی بازو کے نیل چھپاتی ہے، آنکھوں کے حلقوں کو میک اپ کا دھوکا دیتی ہے، ماں کو سب ٹھیک ہے، وہ بہت اچھے ہیں، سب خیال رکھتے ہیں کی لوریاں دیتی ہے، خود گھٹنوں کے بل پل پل اپنے ناکردہ گناہوں کی معافیاں مانگتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:تشدد کے سولہ گواہ ، شرعی تقاضے اور وظیفہ شوہری

اپنے رشتے سے اٹھنے والی بدبو کے بھبکے اوّل تو ماں باپ تک پہنچتے نہیں دیتی اور اگر کبھی کوئی سن گن لگ جائے تو پھر یہی سبق رٹایا جاتا ہے کہ جس گھر میں سرخ جوڑا پہن کر گئی ہو وہاں سے کورے لٹھے کے کفن میں ہی باہر نکلنا۔

لیکن اب نیا دور ہے۔ ماں باپ نہیں سنیں گے، ساس دھیان نہیں دے گی، شوہر پروا نہیں کرے گا تو ایک پوسٹ، ایک ٹویٹ، ایک اسٹیٹس کئی محسنوں کے لگائے گئے زخم باہر لے آئے گا۔ جو معاملہ گھر کی چار دیواری میں سلجھ سکتا تھا، وہ پھر پبلک کے ہاتھ لگ جائے گا۔ پھر جتنے منہ اتنی باتیں ہمدردی کی آڑ میں مجرم ٹھہرانے والوں کی بھیڑ اکھٹی ہوجائے گی۔ لوگوں کو ہنسی اڑانے کے موقع ہاتھ لگ جائیں گے، پھر ظالم اور مظلوم اس معاشرے میں ایک ہی صف میں کھڑے کردیے جائیں گے۔

قانون کی مدد لینے کا سوچیں گے تو ثبوت کہاں سے لائیں گے؟ ایک ایک لات، مکے ، تھپڑ اور گالی کو کس طرح ثابت کریں گے؟ عزت نفس پہ لگنے والے گھاؤ ناپنے کا آلہ کس لیبارٹری میں ملے گا؟ مسئلے کا حل نکالنے کے نام پہ بہت سیمینار ہوگئے، حقوق کے نام پہ واک کی منزل بھی نہ جانے کہاں ہے، لمبے چوڑے بھاشن بھی ختم ہوگئے، لیکن عورت کی لڑائی ختم نہیں ہوئی۔

اس مسئلے کا حل بچے کی گھٹی سے منسلک کردیا جائے تو یقین جانیے آئندہ کوئی لڑکی گھٹ گھٹ کر ہر پل نہیں مرے گی۔ زندہ رہنے کے نام پر صرف سانس نہیں لے گی بلکہ اپنے مان سے جیے گی۔ صرف اتنا کردیجیے کہ بیٹے اور بیٹی کے ساتھ برابر کا برتاؤ کیجیے۔ بیٹے کو دوسروں کی بیٹیوں کی عزت کرنا سکھائیے، انہیں بتائیے کہ عورت صرف ماں، بیٹی، بہن اور بیوی نہیں بلکہ سب سے بڑھ کر ایک انسان ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے اس کی عزت کیجیے اور احترام سکھائیے، ورنہ دو پیروں پہ تو گوریلا بھی کھڑا ہوکر سینے پہ ہاتھ مارتا ہے اور خوفناک آوازیں نکال کر دہشت پھیلاتا ہے۔ آئندہ کبھی کوئی ایسا کرے تو آئینے میں دیکھ لیں، وہی گوریلا سامنے نظر آئے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ