واشنگٹن سے واپسی اور کابینہ کی ائیرپورٹ حاضری

عمران خان کی واپسی پر جشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم امریکہ سے تعلقات کو حاکم اور محکوم کی سطح پر لے آئے ہیں اور تھوڑی سی آؤ بھگت پر شادیانے بجانے لگتے ہیں۔

وزیراعظم کا دورہِ امریکہ پاکستان کے لیے قدرے مفید رہا اور اس سے مستقبل میں کافی فوائد بھی حاصل ہو سکتے ہیں( اے ایف پی)

وزیراعظم عمران خان کے دورہ واشنگٹن کے بعد اسلام آباد ایئرپورٹ پر کابینہ کی جانب سے ان کا استقبال شاید ایک آمرانہ دور حکومت میں تو معمول کی بات سمجھی جائے لیکن ایک جمہوری حکومت میں اس طرح کے عمل کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

حکومت کے مطابق فاتح واشنگٹن اس سے پہلے بھی کامیاب غیرملکی دورے کر چکے ہیں اور بعض ممالک سے کافی بڑی مالی امداد حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن اُن کامیاب دوروں کے بعد اس ’تماشے‘ کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔

دورہ امریکہ کے اختتام پر، جو حکومت پاکستان کی درخواست پر ہوا، کیا بڑی انقلابی یا انہونی کامیابی حاصل ہوئی جس کے لیے کابینہ کو رات گئے ایئرپورٹ پر حاضر ہونے کا حکم صادر کیا گیا؟

یہ کام شمالی کوریا کے صدر کم ال جونگ تو کر سکتے ہیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کے لیے کیا یہ ضروری تھا؟ یہ یقیناً ایک ناقابل ستائش قدم تھا جس سے ایک جمہوری رہنما کو پرہیز کرنا چاہیے۔

اس قدم سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم امریکہ سے تعلقات کو حاکم اور محکوم کی سطح پر لے آئے ہیں اور تھوڑی سی آؤ بھگت پر شادیانے بجانے لگتے ہیں۔ یہ ایک خود دار قوم کا رویہ نہیں اور ایسے رہنما سے تو ان تماشوں کی توقع بالکل بھی نہیں کی جاتی جو ہر وقت خود داری کا راگ الاپتے اور اس طرح کی حرکت پر دوسرے رہنماؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہوں۔

وزیراعظم کا دورہِ امریکہ پاکستان کے لیے قدرے مفید رہا اور اس سے مستقبل میں کافی فوائد بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کامیابی سے اوورسیز پاکستانیوں سے بھی مکالمہ کیا اور ان میں ملک کے بارے میں جوش وخروش میں اضافہ کیا۔

تاہم بدقسمتی سے وزیراعظم اس غیرمعمولی اجتماع میں بھی منفی سیاست کی سطح سے اوپر نہ جا سکے۔ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ابھی بھی اپوزیشن لیڈر ہیں اور ڈی چوک میں کنٹینر پر سوار حکومت کو للکار رہے ہیں۔ وہ اس اجتماع سے پی ٹی آئی لیڈر کے طور پر خطاب کر رہے تھے نہ کہ بحیثیت وزیراعظم پاکستان۔

انہوں نے انتہائی کامیابی سے امریکہ میں بھی تارکین وطن کو پی ٹی آئی اور اپوزیشن میں منقسم کرنے کا شاندار کارنامہ سر انجام دیا۔ وہ اس موقع پر دس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع کے بارے میں بتا سکتے تھے اور انہیں اس جانب راغب کر سکتے تھے۔ یہ قوم کو متحد کرنے کا ایک اچھا موقع تھا جو ہمارے خوش شکل و خوش لباس وزیراعظم نے ضائع کر دیا۔ ہمارے وزیر اعظم کو مدبر بننے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ ایک تیسرے درجے کا سیاست دان۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیسے کہ میں نے اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ہمارے وزیراعظم کے سوچنے کا انداز اور شخصی خصوصیات ایک جیسی ہیں اورعین ممکن ہے کہ ان کی کیمسٹری خوب بنے۔

واشنگٹن میں ملاقات کے بعد بظاہر ایسا لگتا ہے دونوں کے درمیان ذاتی تعلق قائم ہو گیا ہے اور یہ تعلق پاکستان کے خارجہ مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد دے سکتا ہے۔ دونوں رہنماؤں کی باڈی لینگوئیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھ پائے ہیں اور شاید پسند بھی کرنے لگے ہیں۔ اس سے دونوں ملکوں میں اعتماد کی فضا بتدریج بہتر ہونے کے مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ صدر ٹرمپ غیر متوقع شخصیت ہیں اور اپنی خواہشات مکمل نہ ہونے کی صورت میں فوراً آنکھیں بدل سکتے ہیں۔

ہمارے لیے مکمل طور پر غیرمتوقع مگر خوشگوار، مسئلہ کشمیر کے بارے میں صدر ٹرمپ کا بیان تھا۔ پہلی دفعہ کسی امریکی صدر نے اس مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی اور آمادگی کا اظہار کیا ہے، لیکن ہمیں اس سلسلے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔

صدر ٹرمپ نے غلط اطلاعات دینے میں کافی نام کمایا ہے۔ ممکن ہے انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تجویز کو سمجھنے میں غلطی کی ہو۔ بظاہر کسی بھی بھارتی رہنما سے اس قسم کی تجویز کی امید نہیں کی جا سکتی اور بعد کے واقعات نے اس امر کی تصدیق کر دی۔

بھارتی وزارت خارجہ نے فوراً اس تجویز کی سختی سے تردید کر دی۔ اب بظاہر ردعمل کے طور پر بھارتی حکومت آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر تلی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے شاید وزیراعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو کشمیر میں جاری مزاحمت میں ثالثی کرنے کے لیے کہا ہو نہ کہ دونوں ملکوں میں اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کےمطابق حل کرنے کی بات کی ہے۔

ثالثی کے معاملے میں ہمارے لیے کافی قباحتیں ہیں۔ اس میں ہمیں ثالث کے فیصلے کو ماننا ہو گا جو ضروری نہیں ہمارے حق میں ہو۔ لگتا ہے مودی حکومت موجودہ صورتحال اور ایل او سی کو قانونی حیثیت دینا چاہتی ہے۔ شاید اسی لیے صدر ٹرمپ کو ثالثی کے لیے کہا گیا، ہمیں اس میں بہت احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

ٹرمپ ناقابل اعتماد ہیں اور کسی قسم کی غلطی ہمارے خطے کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایسا کوئی بھی معاہدہ کشمیری عوام سے بہت بڑی بے وفائی ہو گا۔ اس دورے کے نتیجے کے طور پر بھارت کو بہرحال کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولنا ہو گا اور اگر امریکی دباؤ جاری رہا تو یہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ بہتری لا سکے گا۔

بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات یقینا صدر ٹرمپ کی دورہِ واشنگٹن کی دعوت میں بہت بڑا ایجنڈا آئٹم نہیں تھا۔ صدر ٹرمپ کی دلچسپی صرف اور صرف افغانستان کے مسئلے سے وابستہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل انہیں آسانی سے مزید چار سال کے لیے امریکہ کا صدر منتخب کرانے میں مدد کرسکتا ہے۔

طالبان کے معاملے میں ہمارا محدود اثر و رسوخ بہت زیادہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ امید ہے  ہم نےاس معاملے میں صرف وہی وعدے کیے ہوں گے جو پورے کر سکیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں حالات اور بھی مشکل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کا کردار افغانستان میں امن کو مستحکم کرنے میں اہم رہے گا۔

یہ دورہ مجموعی طور پر دونوں ملکوں کے لیے بہتر ثابت ہوا۔ امریکہ نے امداد کی بحالی کی طرف اشارہ کیا ہے اور ایف 16 طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے ٹیکنیکل سپورٹ کا بھی اعلان کر دیا۔

امید ہے کہ ہمارے تجارتی تعلقات میں بھی اضافہ ہو گا۔ ان سب امیدوں کے ساتھ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ہم نے واشنگٹن میں جو وعدے کیے ہیں اگر ان پر پورا نہ اترے تو صدر ٹرمپ اپنے پرانے جارحانہ انداز کی جانب واپس آنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر