مردانہ کمزوری!

مردانہ کمزوری کی علت کا شکار معاشرہ خواتین کو ہمیشہ ایک مخصوص نظر سے پرکھتا ہے۔

(انڈپینڈنٹ اردو)

مردانہ معاشرے کی سب سے بڑی علت ہے مردانہ کمزوری!

اِس علت کا شکار معاشرہ خواتین کو ہمیشہ ایک مخصوص نظر کے تناظر اور مخصوص عضو کے تناسل پر پرکھتا ہے۔ ایسے معاشرے کے لیے خواتین محض مردوں کی جسمانی، نفسیاتی اور سماجی دلجوئی کے لیے تخلیق کی گئی ہیں جو ہر لمحہ مرد کی ظاہری اور باطنی انا کی تسکین کرتے ہوئے اسے اس کی کمزوری کا احساس نہ ہونے دیں۔

ایسا مردانہ معاشرہ عورتوں کو ہمیشہ سماجی دائروں میں قید رکھنا چاہتا ہے۔ یہ میری ماں ہے، وہ میری بہن ہے، یہ میری بیوی ہے، وہ میری بیٹی ہے۔

ان دائروں سے باہر نہ تو کسی عورت کا وجود ہے نہ وزن۔ ان دائروں کے اندر بھی عورت کے وجود کی حدود اسی مردانہ معاشرے نے قائم کر رکھی ہیں۔

جو عورت مرد کے اس دائرے سے باہر ہو وہ چالاک، چلتر، بکاؤ یا چالو یا ایسی ہی کچھ اور۔۔۔ بس انسان نہیں رہتی اور نہ ہی عزت رکھتی ہے کیونکہ وہ مرد کی کمزوری اور انا کے لیے خطرہ جو بن جاتی ہے۔

ماں ہے تو بیٹے کتنے رکھتی ہے، بیوی ہے تو بچے کتنے پیدا کر سکتی ہے، بہن ہے بیٹی ہے تو دوپٹے کا پلو کتنا سر پر رکھنا ہے اور کتنا سینے پر، بہو ہے تو جہیز کتنا لے کر آنا ہے، کمزور معاشرے میں عورت کے لیے ان سب باتوں کا تعین مرد کرتا ہے اور انہی کی بنیاد پر عورت کے کردار کی پرکھ بھی کرتا ہے۔

تعلیم کون سی اور کتنی حاصل کرنی ہے، پیشہ کون سا اختیار کرنا ہے، جاب کرنی ہے یا نہیں کرنی۔۔۔ آج کے دور میں بھی اس معاشرے میں ان سب باتوں کا تعین عورت کے لیے کرنا مرد کا ہی اختیار کل ہے۔

تعلیم، نوکری، شادی، بچے، طلاق، خلع، علیحدگی۔۔۔ ان جیسے معاملات میں جہاں کسی عورت نے دائرے سے باہر سوچنے کی کوشش بھی کی اس پر کالک لگا دی گئی۔

معاشرہ چونکہ خود مردانہ کمزوری کا شکار ہے اس لیے عورت کے کردار پر کالک مل دو تاکہ اپنی بیماری کی سیاہی چھپی رہے۔ فلاں کے ساتھ اٹھتی ہے، فلاں کے ساتھ بیٹھتی ہے۔ عورت کا کردار مرد کے ہاتھ میں موم کی گڑیا کی طرح تھما دیا گیا ہے۔ جہاں حکم عدولی ہوئی بازو مروڑ دیا، ہاتھ جھٹک دیا، پاؤں توڑ دیا، ناک کاٹ دی یا گڑیا کو جلا ہی ڈالا۔ چپ چاپ اپنے ہی دامن میں پگھلتی، نہ کسی نے آواز سنی، نہ شور سنا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کتنی ہی خواتین ہیں جو ہمارے معاشرے میں چادر اور چار دیواری کے تقدس کی چند فرسودہ روایات اور نظریات کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں صرف اس لیے کہ ان کا تعین مردانہ معاشرے نے کر رکھا ہے۔

گھر میں مرد بدتہذیبی کرے، گالم گلوچ کرے، مار پیٹ کرے لیکن گھر کی بات گھر سے باہر نہ جائے کیونکہ گھر کا ’تقدس‘ برقرار رہے۔ گلی محلے والے کیا کہیں گے، خاندان والے کیا کہیں گے۔

یہ سب خوف عورت کے اندر اسی مردانہ معاشرے نے ہی ٹھونس رکھے ہیں۔ مرد ہاتھ اٹھائے لیکن گھر کا ’تقدس‘ پامال نہ ہو، عورت آواز بھی اٹھائے تو چادر اور چار دیواری کی ’حرمت‘ میں دراڑ پڑ جائے۔

مرد ظلم کرے تو بھی معصوم، عورت مظلوم ہو کر بھی مطعون، کچھ تو کیا ہوگا جو مرد کو غصہ آیا۔ کچھ تو کیا ہوگا جو گھر کے مرد نے ہاتھ اٹھایا۔

بیٹے پیدا نہیں کرتی، کچھ تو نقص عورت میں ہی ہوگا۔ سڑک پر چلتے کسی بدمعاش مرد نے آواز کس دی۔ دوپٹہ ٹھیک سے نہیں لیا ہوگا۔ ریپ ہوگیا، کپڑے ٹھیک نہیں پہنے ہوں گے، کردار ہی ٹھیک نہیں ہوگا۔

سرخ لپ سٹک لگا لی، آج تو ضرور کسی کو دعوت خلوت دی ہوگی۔ عورت کے دوپٹے کے پلوکی چوڑائی سے آستین کی لمبائی تک، گلے کی گہرائی سے قمیض کے گھیراؤ تک، شلوار کے نیفے سے لے کر پائنچے کی پیمائش تک عورت کے کردار کی ناپ تول اس مرد کے ہاتھ ہے جو خود ازلی کمزوری کا شکار ہے۔

اسی کمزوری کی علت اور عیب پر قابو پانے کے لیے مرد کبھی عورت کو دھمکاتا ہے کبھی ڈراتا ہے کبھی رعب جماتا ہے کبھی مارتا پیٹتا ہے، کبھی جان سے مار دیتا ہے۔

پھر بھی عورت باز نہ آئے تو صدیوں سے آزمودہ نسخہ کیمیا اپناتا ہے اور عورت پر لیبل چپکا دیتا ہے کہ رہی سہی زندگی میں شاید ہی کوئی دوسرا ہو جو اس لیبل کے نیچے دبی عورت کی اصل پہچان کو جانچ سکے۔

بہت سن لیا، بہت سہہ لیا، بہت لکھ دیا بہت کہہ دیا۔ یہ اٹھارویں یا انیسویں صدی نہیں جہاں مشرقی عورت کا گہنا، مشرقی عورت کا حسن اور زیور جیسی فرسودہ سوچ اور چاردیواری کے تقدس اور حرمت جیسی بوسیدہ روایات اور رواج کو مسلسل پنپنے دیا جائے۔

عورت کو آواز اٹھانی ہوگی، اٹھنا ہوگا۔ کچھ توعورت نے آواز بلند کی ہے لیکن تاحال نقار خانے میں طوطی کی مانند ہے۔ سینکڑوں عورتیں ہیں جو ابھی بھی گھروں یا دفتروں کی چار دیواری میں مردوں کے ہاتھ کیسے کیسے عذاب سہنے پر مجبور ہیں اور خاموش ہیں۔

جب تک بولو گے نہیں تو کوئی سنے گا کیسے؟ بولنے پر بھی ہزار تہمت لگے گی لیکن چپ رہ کر بھی عذاب ٹلے گا نہیں۔

ہر وہ عورت جو مرد کے ہاتھوں جسمانی، نفسیاتی، معاشی یا سماجی تشدد کا شکار ہے، اسے بولنا ہوگا آواز اٹھانی ہوگی، اپنی طاقت آپ بننا ہوگا۔

مرد کے ظلم کا نشانہ ہے تو غلطی عورت کی نہیں لیکن اگر ’مسلسل‘ ظلم کا نشانہ ہے تو کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہو رہی ہے۔ آواز نہ اٹھانے کی غلطی۔ ظلم برداشت کرتے جانے کی غلطی۔

عورت آواز اٹھائے گی تو یا تو مدد ملے گی یا نہیں ملے گی۔ مدد ملے تو کیا ہی خوب، لیکن نہ بھی ملے تو بذات خود آواز بلند کرنا اپنی مدد آپ سے کم نہیں۔

ظلم کرنے سے بڑا ظلم اسے سہنا اور سہتے رہنا ہے۔ دنیا بدل رہی ہے، دنیا بدل چکی ہے، عورت کو آج بھی صرف احساس کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر کتنی بڑی طاقت رکھتی ہے۔

آج دنیا کے بدلنے میں عورت کے بدلنے کا بہت بڑا کردار ہے اور یہی عورت کی بڑی قوت اور طاقت ہے، اس معاشرے کے خلاف جس کی سب سے بڑی علت ہی مردانہ کمزوری ہے!

غریدہ فاروقی کے دیگر کالم:

نشے میں چور

ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان


نوٹ: اگست 2019 میں پوسٹ ہونے والا یہ مضمون 30 جنوری، 2021 کو دوبارہ شیئر کیا گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ