تحریک عدم اعتماد ناکام: صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ برقرار

ایوان بالا میں ہونے والی خفیہ رائے شماری کے بعد حکومت کی جانب سےڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بھی ناکام ہوگئی۔

صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کے  عہدے کا حلف اٹھاتے ہوئے (فائل تصویر: اے پی پی)

ایوان بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف پیش کی گئیں اپوزیشن اور حکومت کی عدم اعتماد کی تحاریک ناکام ہوگئیں۔

صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر آج ایوان میں خفیہ رائے شماری ہوئی، جس میں 100 ارکان نے حصہ لیا۔ مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار نے (حلف نہ اٹھانے کے باعث) اور سینیٹر چوہدری تنویر نے ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ جماعت اسلامی کے دو ارکان نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

ووٹوں کی گنتی کے بعد سینیٹ اجلاس کی صدارت کرنے والے پریزائیڈنگ آفیسر بیرسٹر سیف نے بتایا کہ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں 50 ووٹ پڑے، یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ تعداد (53 ووٹ) نہ ہونے کے باعث تحریک کو مسترد کیا جاتا ہے۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ان کے پاس نمبر گیم پورا ہے، تاہم آج پانسہ حکومت کے حق میں پلٹ گیا۔

صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد وزیراعظم عمران خان کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اپوزیشن کو مشورہ دیا کہ ’وہ اپنے اعمال کا احاطہ کرے اور نیا پاکستان بنانے کی عمران خان کی سوچ کے ساتھ کھڑے ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر جو کامیابیاں مل رہی ہیں، دنیا اسے قبول کر رہی ہے، اب اپوزیشن کو بھی میں نہ مانوں کی گردان سے باہر آنا چاہیے، ہم ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے تیار ہیں۔‘

چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’14 ارکان نے دھوکا دے کر پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ ان لوگوں کو شناخت کرکے ان کے نام سب کے سامنے لائے جانے چاہییں۔‘

دوسری جانب حکومت کی جانب سے پیش کی گئی ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی ناکام ہوگئی۔

ڈپٹی چیئرمین کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے حق میں صرف 32 ووٹ آئے، جس کے باعث اسے بھی مسترد کردیا گیا۔

بعدازاں سینیٹ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

سینیٹ میں پارٹی پوزیشن
ٹوٹل ۔ 103 سینیٹرز 
جماعت اسلامی کے 2 (ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا) 
مسلم لیگ ن کے 30
 پیپلز پارٹی کے 21
نیشنل پارٹی کے 5
 پختوانخوا ملی عوامی پارٹی کے 4
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 4 
عوامی نیشنل پارٹی کا ایک سینیٹر

مسلم لیگ ن کے سینیٹر چوہدری تنویر ملک سے باہر ہیں۔

حکومتی بینچ پر 36 سینیٹرز موجود ہیں

پاکستان تحریک انصاف کے 14

 بلوچستان عوامی پارٹی کے 8

سابقہ فاٹا کے 7

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 5

 مسلم لیگ فنکشنل 1

 بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) 1 سینیٹر ہے۔


اس سے قبل چیئرمین صادق سنجرانی کے مستعفی ہونے کی افواہوں اور تردیدی بیانات نے ماحول کو مزید گرما دیا تھا۔ 

نیشنل پارٹی کے ترجمان جان محمد بلیدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ موجودہ معاملے میں ایوان بالا کے چیئرمین صادق سنجرانی کے حوالے سے حکومتی دعویٰ کہ ’ڈٹ کا مقابلہ کریں گے اور استعفیٰ نہیں دیں گے‘ کا مطلب ہے کہ آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ 

جان محمد بلیدی کے مطابق ’اپوزیشن متحد ہے اور ہمارے پاس 62 سینیٹرز ہیں اور مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کی براہ راست رہنمائی ہمارے لیے حوصلہ افزا ہے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ایوان بالا میں سینیٹرز کی کل تعداد 103 ہے جن میں سے 62 ہمارے ساتھ ہیں، فرق صرف 20 کا ہے جس کو کور کرنا ناممکن لگتا ہے۔ ’ہمیں نظر آرہا ہے کہ حکومت میں اختلافات زیادہ ہیں اور دباؤ کے باعث ٹوٹنے کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔‘ 

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ڈٹ کر مقابلے کرنے کا اعلان کرتے ہوئے شبلی فراز کو آزاد سینیٹرز سے رابطے تیز کرنے کی ہدایت کی تھی۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا جس میں حکومتی سینیٹرز نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایوان بالا کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مشاورت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم نیشنل پارٹی کے ترجمان جان بلیدی نے کہا تھا: ’بظاہر ایسا کچھ نہیں لگتا کہ ایوان بالا کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کو ناکامی کا سامنا ہوگا بشرطیکہ اگر حکومت کی طرف سے کوئی آئینی پیچیدگی سامنے نہ لائی جائے تاہم اس کے امکان کو ہمارے ماہرین نے رد کر دیا ہے۔‘

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام  کمال نے ایک انٹرویو میں امید کا اظہار کیا تھا کہ ایوان بالا کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے نمبر گیم پورا کرلیں گے۔ 

جبکہ اپوزیشن بھی پُرامید تھی کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی، تاہم تجزیہ نگاروں نے اس کو متحدہ اپوزیشن کے لیے ایک بڑا چیلنج اور موقع قرار دیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست