امریکی ریاستوں ٹیکسس اور اوہائیو میں فائرنگ، 29 افراد ہلاک

فائرنگ کا پہلا واقعہ ریاست ٹیکسس کے شہر ایل پاسو کے ایک سپر سٹور میں پیش آیا، جہاں 20 افراد ہلاک ہوئے جبکہ ریاست اوہائیو کے شہر ڈیٹن کے ایک بار اور نائٹ کلب میں فائرنگ سے نو افراد ہلاک ہوئے۔

سی سی ٹی وی تصویر میں  ٹیکسس کے شہر ایل پاسو کے وال مارٹ میں فائرنگ کرنے والے حملہ آور کو سٹور میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے ( اے ایف پی)

امریکی ریاستوں ٹیکسس اور اوہائیو میں آج پیش آنے والے فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں کم از کم 29 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔

فائرنگ کا پہلا واقعہ ریاست ٹیکسس کے شہر ایل پاسو کے ایک وال مارٹ میں پیش آیا، جہاں پولیس کے مطابق شدت پسندانہ نظریات رکھنے والے ایک 21 سالہ سفید فام مشتبہ حملہ آور نے مبینہ طور پر ایک سپرسٹور میں فائرنگ کرکے کم از کم 20 افراد کو ہلاک کر دیا۔

موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے حملہ آور مال میں داخل ہو کر نیم خودکار ہتھیار سے اندھا دھند فائرنگ کر رہا ہے اور لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔

فائرنگ کے اس واقعے میں 20 افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، جبکہ کم از کم دو درجن افراد زخمی ہوئے جنہیں ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا۔

مختلف میڈیا رپورٹس میں حملہ آور کا نام پیٹرک کروسس بتایا جا رہا ہے جو بظاہر ڈیلاس کے نزدیک اپنے آبائی قصبے ایلن سے 10 گھنٹے کی مسافت طے کرکے سپر سٹور کو نشانہ بنانے کے لیے ایل پاسو پہنچا تھا۔

میکسیکو کی سرحد کے قریب واقع اس شہر میں دنیا بھر سے امریکہ پہنچنے والے تارکین وطن بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حملہ آور نے سوشل میڈیا پر کئی روز قبل حملے کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا تھا ’یہ وسطی اور جنوبی امریکہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ٹیکسس پر چڑھائی کا ردعمل ہے۔‘

حملہ آور نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا تھا ’یہاں تک کہ اگر اس میں دوسرے غیر تارکین وطن افراد بھی نشانہ بنتے ہیں تو بھی اس کا زیادہ اثر پڑے گا۔ میں اپنے ہم وطن امریکیوں کو مارنے کے لیے خود کو یہاں نہیں لا سکتا ہوں۔‘

سوشل میڈیا پوسٹ کے مطابق: ’مختصر یہ کہ امریکہ اندر سے سڑ رہا ہے اور اس کو روکنے کے پرامن ذرائع تقریباً ناممکن نظر آتے ہیں۔ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے رہنما (دونوں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن) کئی دہائیوں سے ہمیں ناکام بنا رہے ہیں۔‘

سی این این کے مطابق فائرنگ کے واقعے کے بعد فیس بک کمپنی پولیس کے ساتھ مل کر ملزم سے وابستہ فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کو ہٹانے کے لیے کام کر رہی ہے۔

کمپنی نے ایک بیان میں کہا ’ہماری ہمدردیاں متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ وہ مواد جو فائرنگ کی حمایت، نمائندگی یا پسندیدگی کا اظہار کرتا ہے یا کوئی بھی ہمارے معاشرے کے معیارات کی خلاف ورزی کرتا ہے ہم اس کی شناخت ہوتے ہی اسے (اپنے پلیٹ فارم سے) ہٹاتے رہیں گے۔‘

ٹیکسس کے گورنر گریگ ایبٹ نے، جو طویل عرصے سے بندوق رکھنے کے حامی اور اسلحے کی فروخت کو منظم کرنے کی کوششوں کے مخالف ہیں، ایک پریس کانفرنس میں واقعے کو ٹیکسس کی تاریخ کا سب سے ’مہلک دن‘ قرار دیا۔

ایبٹ نے ٹوئٹر پر لکھا: ’یہ اب ایل پاسو کے خوبصورت شہر میں ہوا ہے۔ ٹیکسس کے لوگ آج اس شاندار مقام کے لوگوں کے لیے غمزدہ ہیں۔ ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان سب کے زخموں کو بھر دے جن کو نقصان پہنچا ہے۔‘

دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی واقعے کو’خوفناک‘ قرار دیا ہے۔

ٹرمپ نے حال ہی میں 2020 کے صدارتی انتخابات کے لیے اپنی مہم کے دوران امیگریشن مخالف بیان بازی کی تھی جبکہ ایوان نمائندگان نے ٹرمپ کی اِن نسل پرستانہ ٹویٹس کی باضابطہ مذمت کی ہے، جن میں انہوں نے ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی چار خواتین ارکانِ کانگریس کو ’واپس جانے‘ کا مشورہ دیا تھا۔

ٹیکسس واقعے پر امریکی صدر نے لکھا: ’ہم ریاست، مقامی حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ میں نے گورنر سے اپنی گفتگو میں وفاقی حکومت کی مکمل حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ خدا آپ سب کے ساتھ ہو!‘

دوسری جانب اپنی پوسٹ میں مشتبہ حملہ آور نے لکھا تھا کہ صدر ٹرمپ کے الفاظ اس کی تحریک نہیں تھے۔ حملہ آور نے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مساجد پر ہونے والی فائرنگ کی حمایت میں بھی بات کی جس میں 51 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

حملہ آور نے لکھا: ’میں جانتا ہوں میڈیا شاید مجھے سفید فام افراد کی بالادستی کا حمایتی کہے گا اور ٹرمپ کے بیانات کو مورد الزام قرار دے گا۔ میڈیا جعلی خبروں کے لیے بدنام ہے۔ اس حملے کے بارے میں ان کے ردعمل سے شاید اس کی تصدیق ہوجائے گی۔‘

ایل پاسو کے پولیس چیف گریگ ایلن نے بتایا کہ مشتبہ شخص کے منشور سے حکام کو اشارہ ملا ہے کہ یہ نفرت پر مبنی جرم اور اس کا ممکنہ گٹھ جوڑ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مشتبہ شخص کو پولیس کا سامنا ہوتے ہی بغیر کسی مزاحمت کے تحویل میں لیا گیا تھا اور اس وقت اس سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

ایل پاسو سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹ پارٹی کی رکنِ کانگریس ویرونیکا ایسکوبار نے کہا: ’حملہ آور کا منشور نفرت، نسل پرستی، تعصب اور تفرقہ بازی سے متاثر ہے۔ ایل پاسو کے عوام ہمیشہ اُن کمزور لوگوں کے ساتھ احسان اور فراخدلی سے پیش آئے جو امریکہ کے اس دروازے پر پہنچ رہے ہیں۔‘

اوہائیو میں فائرنگ سے نو افراد ہلاک

فائرنگ کا دوسرا واقعہ ریاست اوہائیو میں پیش آیا، جس کے نتیجے میں حملہ آور سمیت نو افراد ہلاک جبکہ 16 زخمی ہوگئے۔

خبر رساں ادارے ایف پی کے مطابق اوہائیو کے شہر ڈیٹن کے علاقے اوریگون میں ایک بار اور نائٹ کلب میں فائرنگ کا واقعہ ہفتے اوراتوار کی درمیانی شب تقریباً ایک بجے کے قریب پیش آیا۔

پولیس کے لیفٹیننٹ کرنل میٹ کارپر نے نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا: ’ہم جانتے ہیں کہ ایک شخص نے فائرنگ کی، جس میں بہت سے افراد متاثر ہوئے۔ پولیس اہلکاروں کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں حملہ آور بھی مارا گیا، تاہم کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا۔‘

انہوں نے بتایا: ’مشتبہ شخص نے ایک بڑی رائفل سے کئی گولیاں چلائیں۔‘

لیفٹیننٹ کرنل میٹ کارپر نے مزید کہا کہ پولیس حملہ آور کی شناخت کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’ڈیٹن میں اوریگون اندرون شہر کا بہت محفوظ علاقہ ہے جو سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ بدقسمتی سے جب فائرنگ کا واقعہ پیش آیا اس وقت علاقے میں کئی پولیس افسر موجود تھے۔ تشدد کا یہ واقعہ بہت مختصر تھا اس لحاظ سے ہم خوش قسمت ہیں۔‘

کرنل میٹ کارپر نے مزید کہا: ’یہ بڑا افسوس ناک واقعہ ہے اور ہم اس کی تحقیقات کے لیے تمام وسائل سے کام لے رہے ہیں۔ ہم فائرنگ کے واقعے کے محرکات کا تعین کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ہم بہت سے عینی شاہدین اور پولیس افسران سے انٹرویو کر رہے ہیں تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ حملہ آور کے ساتھ کوئی اور بھی واقعے میں ملوث ہے یا نہیں۔‘

اس خبر کی تیاری میں ایجنسیز کی بھی معاونت شامل ہے

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ