گوادر کی دیواریں بولنے لگیں

گوادر کی تاریخ میں پہلی بار رنگوں سے شغف رکھنے والے کچھ نوجوانوں نے شہر کی دیواروں کو اپنے فن سے سجا دیا ہے۔

گوادر کی تاریخ میں پہلی بار  دیواروں کو یوں رنگوں سے  سجایا گیا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

اب آپ جب بھی گوادر میں داخل ہوں گے تو آپ کا استقبال رنگوں سے مزین یہ دیواریں کچھ اس طرح کریں گی کہ ایک ہی نظر میں آپ گوادر کے لوگوں کی ثقافت، تہذیب و تمدن، پوشاک اور یہاں کے مچھیروں کی زندگی سے واقف ہوجائیں گے۔

گوادر کی تاریخ میں پہلی بار یہ کوشش رنگوں سے شغف رکھنے والے کچھ نوجوانوں نے کی ہے، جن میں سے ایک حفیظ بلوچ بھی ہیں۔

حفیظ بلوچ کے لیے وال آرٹ میں حصہ لینا دلچسپ اور منفرد تجربہ ہے، جس سے انہیں سیکھنے کو بھی بہت کچھ ملا ہے۔

حفیظ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’جب میں تصویر بنا رہا تھا تو لوگ پوچھتے رہے کہ یہ کیا بنا رہے ہو؟ سی پیک ہے یا کچھ اور؟ اور جب میں کہتا کہ یہ ’میری کلات‘ ہے تو وہ حیران ہو کر پوچھتے کہ یہ کون سی جگہ ہے لیکن جب تصویر مکمل ہوئی تو لوگوں کو اس جگہ کے بارے میں پتہ چلا۔‘

یاد رہے کہ میری قلات، ضلع کیچ کے علاقے دشت کے قریب واقع ایک قدیم قلعہ ہے۔ تاریخ میں اس قلعے کو محبت کی داستان سسی پنوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ پنوں کا تعلق اس علاقے سے تھا۔

حفیظ بلوچ کے مطابق ’کسی کو بات سمجھانے کے لیے تصویر سب سے آسان ذریعہ ہے۔ آرٹ کے ذریعے ہم اپنی ثقافت اور کلچر کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حفیظ کے بقول ’آرٹسٹ وہی ہوتا ہے جو تخلیق کرتا ہے۔ ہماری اس کوشش کے ذریعے گوادر کے لوگوں نے اپنی ثقافت،کلچر اور تعلیم کے حوالے سے آگاہی حاصل کی۔‘

گوادر سی پیک کا مرکز اور بلوچستان کا گہرا ساحلی علاقہ ہے۔ پسنی، تربت اور گوادر سے تعلق رکھنے والے 60 فنکاروں نے گوادر کی دیواروں کو پدی زیر ڈرائیو تا گوادر ایئرپورٹ،گوادر فری زون اور پی سی ہوٹل تک اپنے فن سے سجا دیا ہے۔

تصاویر بنانے والوں میں سکول کے بچے بھی شامل ہیں، جنہوں نے گوادر کی دیواروں پر مختلف موضوعات پر 68 تصاویر بنائیں۔

 

دیواروں کو سجانے کے لیے کوششیں کرنے والے بھی فنکاروں کی آمد اور لوگوں کی پذیرائی سے خوش ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے دنیا بلوچستان کے فن کاروں اور ان کے کام  سے واقف ہوگی۔

سماجی تنظیم بامسار کے سربراہ اور وال آرٹ کے منتظم  نصیر احمد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمارے شاعروں، گلوکاروں اور دیگر فنکاروں کو پزیرائی نہیں ملتی اور نہ ہی دنیا کو ان کے بارے میں معلوم ہے، لیکن یہ ایک چھوٹی سی کاوش ہے۔

نصیر احمد کے بقول گوادر وال آرٹ کے ذریعے ہم نے دنیا کو پیغام دیا کہ بلوچستان میں بھی باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں ہے جو تخلیقی کام بھی کرسکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان