’باپ‘ کی خیبر پختونخوا اسمبلی میں انٹری: صوبائی سیاست میں نیا موڑ؟

قبائلی اضلاع سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے ضلع مہمند کے ایک اور ضلع خیبر کے دو آزاد امیدوار بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد 2018  میں رکھی گئی تھی، جس نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں بلوچستان میں 24 نشستوں پر کامیابی کے بعد وہاں حکومت بنائی (تصویر: امیر زادہ آفریدی)

خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم ہونے والے اضلاع میں انتخابات کے بعد آزاد حیثیت سے جیتنے والے امیدواروں میں سے تین ایسے بھی ہیں جنہوں نے گزشتہ روز بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد 2018  میں رکھی گئی تھی، جس نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں بلوچستان میں 24 نشستوں پر کامیابی کے بعد وہاں حکومت بنائی اور قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کی۔

قبائلی اضلاع سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے ضلع خیبر کے دو آزاد امیدوار اور ضلع مہمند سے کامیاب ہونے والے ایک امیدوار اس پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ اسی طرح تینوں امیدواروں کی شمولیت سے انہیں خواتین کی ایک مخصوص نشست بھی مل جائے گی اور یوں اس پارٹی کے چار امیدوار اسمبلی کا حصہ بن جائیں گے۔

’باپ‘ میں شامل ہونے والے الحاج شاہ جی گل کے بیٹے اور ضلع خیبر سے کامیاب ہونے والے امیدوار بلاول آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس پارٹی میں شمولیت کا بنیادی مقصد قبائلی اضلاع کے لوگوں کے لیے کام کرنا اور ان علاقوں کی  ایک اچھی تصویر پوری دنیا کو دکھانا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت سے ان کو مخصوس نشست بھی مل گئی ہے جو دوسری پارٹیوں میں جانے سے ممکن نہیں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلاول کے مطابق بلوچستان بھی ایک پسماندہ صوبہ ہے اور خیبر پختونخوا بھی اسی طرح ہے تو اس پارٹی میں شمولیت سے ہم دونوں صوبوں کی ترقی کے لیے مل کر کام کر سکیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا: ’اس پارٹی میں شمولیت سے ہمیں وزارت سمیت اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر اور سینیٹ میں بھی نمائندگی مل جائے گی۔‘

جب بلاول آفریدی سے پوچھا گیا کہ بلوچستان میں بنی پارٹی، جن کی خیبر پختونخوا میں نہ  کوئی نشست ہے اور نہ ہی انہوں نے یہاں سے کوئی امیدوار کھڑا کیا تھا تو اس پارٹی میں کیسے شمولیت اختیار کرلی؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ ’ایک دن یہ پارٹی وفاق کی جماعت بنے گی اور اسی وجہ سے انھوں نے اس میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔‘

انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کے حوالے سے بتایا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اس پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے، وہ لوگ ماضی میں مسلم لیگ ن اور اب پی ٹی آئی پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے تو یہ کوئی ٹھوس تنقید نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی سچائی ہے۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

’باپ‘ کے خیبر پختونخوا میں ظہور کو مبصرین مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ کچھ بلاول آفریدی سے متفق ہیں کہ یہ پارٹی وفاق کی جماعت بنے گی اور باقی صوبوں کی سیاست میں بھی  نمودار ہوگی۔

خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ ’یہ پارٹی بلوچستان میں بنی ضرور ہے لیکن مستقبل میں یہ بلوچستان عوامی پارٹی سے تبدیل ہو کر پاکستان عوامی پارٹی  بن جائے گی۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’امکان یہ ہے کہ سندھ میں یہ مصطفیٰ کمال جیسے لوگوں کے ساتھ اتحاد کریں گے اور وہاں کی سیاست میں آجائیں گے جبکہ پنجاب میں پہلے سے اس پارٹی کے سپورٹر موجود ہیں۔‘

محمود جان بابر کا مزید کہنا تھا:’اس پارٹی کو  بڑی پارٹیوں جیسے کہ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف اُس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے جب کچھ قوتوں کو احساس ہوجائے کہ اب یہ ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔‘

دوسری جانب بلوچستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار مالک اچکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ پارٹی نہیں بلکہ ’ایلیٹ  کلب‘ ہے اور وہی لوگ اس میں شامل ہوں گے جو اپنی سیاست کر کے اپنی کاروبار کو بچانا چاہتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ’کیا باپ، قوم پرست پارٹیوں جیسا کہ عوامی نیشنل پارٹی یا پختونخوا ملی عوامی پارٹیوں کے لیے کوئی خطرہ ہے؟‘ تو انہوں نے جواب دیا  کہ مستقبل میں بھی مسلم لیگ ق جیسی اس طرح کی جماعتیں بنی ہیں، لیکن کچھ عرصے کے لیے سیاست میں رہ کر پھر غائب ہوگئیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ جماعت قوم پرست پارٹیوں کے لیے کسی قسم کا خطرہ ثابت نہیں ہوسکتی  کیونکہ ان پارٹیوں کی اپنی ایک تاریخ ہے اور ان کی سیاست ایک نظریے کی بنیاد پر ہوتی ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آج ایک پارٹی اور کل دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کیسے بنی؟

دسمبر 2015 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے نواب ثنااللہ زہری بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے لیکن دو سال اس نشست پر رہنے کے بعد ان کی اپنی ہی  پارٹی کے ارکان نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی اور یوں زہری نے جنوری 2018 میں وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

مارچ 2018 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ناراض رہنماؤں نے بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی اور پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی مدد سے اسی پارٹی کے رہنما صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنایا گیا، جس کے بعد جولائی کے عام انتخابات میں 24 نشستیں جیتنے کے بعد وہاں پر حکومت بنا کر پارٹی صدر جام کمال کو صوبے کا وزیراعلیٰ منتخب کرلیا گیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست