آرٹیکل 370 کا خاتمہ: پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا مستقبل؟ 

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر مسعود خان کا کہنا ہے کہ یہ ریاست پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دنیا بھر میں موجود دوست ممالک سے رابطے کرے اور بھارت پر عالمی دباؤ ڈالے۔

پاکستان میں بھارت مخالف احتجاجی ریلی (اے ایف پی)

بھارت کی جانب سے پانچ اگست کو کشمیر کی تقسیم اور بھارت کے ساتھ الحاق کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر بھی سوال اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب اگلا قدم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو لینا ہے۔ جب کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر مسعود خان نے کہا کہ جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری نہیں ہوتی کشمیر تب تک خود مختار ہی رہے گا۔ رائے شماری سے پہلے کسی بھی ملک سے الحاق نہیں ہو سکتا۔ 

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر مسعود خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ریاست پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دنیا بھر میں موجود دوست ممالک سے رابطے کرے اور بھارت پر عالمی دباؤ ڈالے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام پاکستان پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کا دفاع کریں گے‘۔ 

پاکستان کے پاس اب کیا راستے باقی ہیں؟ اور کیا پاکستان صرف اقوام عالم کو خط لکھے گا؟  اس سوال کے جواب میں صدر مسعود خان نے کہا کہ امید ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ مضبوط پیغام دے گی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو کچھ عملی اقدامات اور سفارتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ’یقین ہے کہ پاکستان کشمیر کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔‘

سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پارلیمان میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی شہ رگ کٹ رہی ہے اور وزیراعظم ایوان میں موجود ہی نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے متفقہ آواز کشمیریوں تک جائے۔

بھارت کے اس رویے کے بعد پاکستان کا موقف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر کیا ہو گا؟ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر تو آزاد اور خود مختار ہے اور اللہ پاکستان کو ہمت اور طاقت دے کہ پاکستان اپنے زیر انتظام کشمیر کی حفاظت کر سکے اور سرحد کے اُس پار موجود کشمیر کو بھی آزاد کروا سکے۔‘ 

جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ مستقل کر دیا جائے تو خواجہ آصف نے جواب دیا کہ ایسا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن پاکستانی افواج اس وقت بھی لائن آف کنٹرول پر موجود ہیں اور سرحد کے اِس پار کشمیر کی حفاظت کر رہی ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی سوال کے جواب میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر نے جواب دیا کہ ’سرحد کے اِس پار کشمیر کا حصہ جنگ آزادی کے ذریعے جیتا گیا۔‘

’ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پابند ہیں جب تک جموں سمیت پورے علاقے میں رائے شماری نہیں ہو جاتی تب تک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی خودمختار حیثیت برقرار رہے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بھارت بھی متنازعہ کشمیر کی حیثیت جوں کا توں رکھنے کا پابند تھا لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نہیں مانا۔‘

سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ ’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بھارت کے حوالے کریں۔‘

پاکستان بھارت کے خلاف براہ راست عالمی عدالت انصاف میں نہیں جا سکتا: وزیر قانون

وزیر قانون فروغ نسیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا کوئی قانونی مسئلہ نہیں ہے۔ اُس کی اپنی خود مختار حیثیت موجود ہے لیکن بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے پاکستان براہ راست عالمی عدالت انصاف میں نہیں جا سکتا۔

ان کے مطابق پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے کے جائے گا اور وہاں موثر سفارتکاری کے ذریعے یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف کی ایڈوائزری جوریسڈیکشن کو بھیجا جانا چاہیے جس کے بعد عالمی عدالت انصاف ایک ایڈوائزری جاری کرے گی۔

’بھارت ویانا کنونشن قونصلر رسائی آرٹیکل کے علاوہ باقی معاملات پر خود کو عالمی عدالت انصاف سے الگ رکھے ہوئے ہے اور اُن کے ساتھ کسی دستخطی قرار داد میں بھارت موجود نہیں۔ اس لیے جب بھارت کا عالمی عدالت انصاف کے ساتھ دستخطی معاہدہ ہی موجود نہیں تو پاکستان براہ راست عالمی عدالت انصاف میں بھارت کے خلاف درخواست نہیں دے سکتا لیکن سکیورٹی کونسل کے ذریعے بھارت کے خلاف عالمی عدالت انصاف جایا جا سکتا ہے۔‘

معاملہ سفارتی سطح پر ہی حل کیا جائے: تجزیہ کار

معروف سینئیر صحافی عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ پاکستان جنگ کی طرف تو نہیں جا سکتا اس لیے پاکستان کو سفارتی راستوں کا ہی انتخاب کرنا ہو گا۔

سابق سفیر عبد الباسط نے نے اسی حوالے سے کہا کہ پاکستان کے پاس اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جانے کا آپشن موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب بھارت سے ڈائریکٹ مذاکرات سے معاملہ حل نہیں ہو گا بلکہ تیسرے فریق کی مداخلت سے معاملات حل ہوں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان جوابی طور پر کلبھوشن جادیو تک قونصلر رسائی کا معاملہ کھٹائی میں ڈال دے۔ عبد الباسط نے کہا کہ سفارتی کوششوں سے بھی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔

عبدالباسط کہتے ہیں کہ انھیں نہیں لگتا کہ بھارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کوئی ایڈوینچر کرے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان