صدر ایوب نے کشمیر پر حملے کی چینی پیشکش کیوں ٹھکرا دی؟

شاید صدر ایوب جانتے تھے کہ پاکستان سیٹو کا رکن ہے اور وہ امریکہ کی مرضی کے بغیر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا۔  

سابق صدر جنرل ایوب خان اور  سابق وزیراعظم ذوالفقار علی  بھٹو (سوشل میڈیا)

یہ نومبر 2010 کی ایک سہانی شام ہے، نیویارک کے سینٹرل پارک کے کنارے پر واقع ایک پنج ستارہ ہوٹل رٹز کارلٹن کے صدارتی سوٹ میں پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف سے صحافیوں کا ایک گروپ ملاقات کر رہا ہے۔ پرویز مشرف بہت خوشگوار موڈ میں ہیں کیونکہ ابھی پچھلے ہفتے ان کی ملاقات امریکی نائب صدر ڈک چینی سے ہوئی  ہے جس کے لیے ڈک چینی نے اپنا خصوصی طیارہ بھجوایا تھا۔

امریکہ آنے سے قبل شاہ عبداللہ کا خصوصی ایلچی انہیں اس وقت مل چکا تھا جب وہ دوبئی کے صحرا میں اپنے دوست ڈاکٹر نسیم اشرف کے ساتھ خیمہ زن تھے۔ یہ خصوصی ایلچی شاہ کی طرف سے ایک لفافہ لایا تھا جسے مشرف نے شکریے کے ساتھ واپس کر دیا تھا مگر ایلچی کا کہنا تھا کہ ان کا اختیار اس لفافے کی حوالگی تک محدود ہے واپسی کے لیے نہیں ہے۔ پرویز مشرف  کا موڈ بتا رہا ہے کہ وہ پوری طرح دوبارہ اِن ہو چکے ہیں۔ ہم پلٹ پلٹ کر سوال کرتے ہیں، بعض کے جوابات وہ دیتے ہیں اور بعض کے دیتے وقت آف دا ریکارڈ کا  ٹیگ لگا دیتے ہیں۔

میں پوچھتا ہوں کہ آپ کی حکومت تو ٹھیک چل رہی تھی کہ اچانک عدلیہ کی تحریک شروع ہو جاتی ہے۔ لال مسجد جہاں پوری قوم یک زبان ہو کر آپریشن کا مطالبہ کرتی ہے مگر آپریشن ہوتے ہی رائے عامہ آپ کے خلاف ہو جاتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ حکومت مخالف تحریکیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے کامیاب ہوتی ہیں۔ پوچھا گیا کہ آپ طاقت ور ترین تھے پھر آپ کے نیچے کون سے طاقتور لوگ آپ کے خلاف تھے اور کیوں تھے؟ مشرف رکے، پہلے مسکرائے، پھر مجھ سے کہا، کیا آپ ان لوگوں کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا آپ کے دوست ہوں گے۔ آف دا ریکارڈ کہنے لگے کہ وہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ جس سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے شاید کچھ لوگ اس سے خوش نہیں تھے۔ اس لیے جب پاکستان میں ان کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تو بھارت پیچھے ہٹ گیا۔ 

یہ واقعہ 21 فروری 1999 کا ہے۔ اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان اعلان لاہور پر دستخط ہوتے ہیں۔ اس اعلان کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوتی کہ 3 مئی کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کارگل کا محاذ کھول دیتے ہیں۔ دس ہفتے جاری رہنے والی یہ لڑائی پہلے اعلان لاہور کو اور پھر نواز شریف کو لے ڈوبتی ہے۔ یہاں نوازشریف ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں مگراس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف ان کے خلاف ہو جاتے ہیں۔

تاریخ کے ایک طالب علم کے لیے ان دو منظرناموں میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اگر طالب علم کھوج کا، کرید کا جذبہ رکھتا ہو تو اسے 1947 میں جانا ہوگا۔ جب تین جون کو ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم برصغیر کا اعلان کیا تو اگلے روز ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے کہا کہ ضلع گورداسپور ایک ایسا علاقہ ہے جہاں سرحدوں کا تعین مروجہ اصول کے مطابق نہیں ہوگا کیونکہ اس ضلع میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 50.4 فیصد ہے جبکہ غیرمسلموں کا تناسب 49.6 فیصد ہے اس لیے محض 0.4 فیصد کے فرق سے باؤنڈری کمیشن پورے ضلع کو مسلم اکثریت والے علاقے میں شامل نہیں کر سکتا۔

اس کے بعد ماؤنٹ بیٹن 19 جون کو سری نگر جاتے ہیں جہاں انہوں نے پانچ روز قیام کیا اور مہاراجہ ہری سنگھ سے کئی ملاقاتیں کیں۔ بظاہر کہا گیا کہ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ کو دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا مشورہ دیا مگر گورداسپور کی بھارت میں شمولیت ہی وہ اشارہ تھی جس کے مطابق مہاراجہ کو باور کرایا گیا کہ اگر وہ کشمیر کا الحاق بھارت سے کریں گے تو پاکستان کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور گورداسپور کی جانب سے کمک پہنچ جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی آزادی کے تین دن بعد 17 اگست کو ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت گورداسپور کی تین تحصیلیں بھارت کو دے دی گئیں۔ اس سے ایک ہفتہ قبل کشمیر کے وزیراعظم جنرل جناک سنگھ نے پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک عارضی معاہدے کی پیشکش کی تھی کہ ریاست کے الحاق کا فیصلہ فی الحال نہ کیا جائے بلکہ اسے جوں کا توں رکھا جائے۔ پاکستان نے اسے قبول کر لیا مگر ہندوستان نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ 20 اکتوبر کو ڈوگرہ فوج کی جانب سے 14 ہزار کشمیری مسلمانوں کے قتل عام اور 12 اکتوبر کو قبائلیوں کی لشکر کشی کے بعد 25 اکتوبر کو ماؤنٹ بیٹن کی صدارت میں دفاعی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ ہوا کہ اگر مہاراجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کریں تو کشمیر میں ہندوستان فوج بھیجی جائے۔

اسی روز ریاستی امور کے سیکریٹری وی پی مینن کو فوجی جہاز میں سری نگر بھیجا گیا جہاں انہوں نے مہاراجہ سے الحاق کی درخواست پر دستخط کروائے۔ 26 اگست کو ماؤنٹ بیٹن نے الحاق کی درخواست قبول کرلی اور کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا۔ اس کی اطلاع جب قائد اعظم کو ملی تو انہوں نے 27 اکتوبر کی شام کو فوج کے سربراہ جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا جسے انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔

اور یہ اکتوبر نومبر 1962 کا واقعہ ہے۔ اس وقت کے چینی وزیر اعظم چو این لائی کا ایک خصوصی ایلچی رات کے پچھلے پہر اسلام آباد پہنچتا ہے۔ صدر کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب صدر ایوب کی خواب گاہ تک جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چین سے پیغام آیا ہے کہ ہم نے پوری بھارتی فوج الجھائی ہوئی ہے پاکستان کے لیے کشمیر پر قبضہ کرنے کا اس سے بہتر موقع ہاتھ نہیں آئے گا مگر صدر ایوب بڑبڑاتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ چو این لائی فوج کی حرکت کو بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں اور یہ کہہ کر دوبارہ محوِ خواب ہو جاتے ہیں۔ شاید صدر ایوب جانتے ہیں کہ پاکستان سیٹو کا رکن ہے اور وہ امریکہ کی مرضی کے بغیر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا۔  

اور یہ ابھی حال ہی کی بات ہے۔ 22 جولائی کو وائٹ ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے ان سے کشمیر پر مدد کی درخواست کی ہے تو گویا ایک بھونچال سا آ گیا۔ ابھی اس واقعے کو دو ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے کہ مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت پر مبنی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے کشمیر میں مزید ہزاروں فوجی تعینات کر دیے۔ یہ بظاہر اسرائیلی ماڈل ہے اور شاید جب مودی نے ٹرمپ سے مدد کی درخواست کی ہو تو ٹرمپ نے ہی یہ ماڈل پیش کیا ہو۔ تب ہی تو مودی سرکار نے آناً فاناً کام دکھا دیا ہے۔

کشمیر پر آئندہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ کوئی نہیں جانتا کہ امن یا جنگ میں سے حالات کس طرف جاتے ہیں۔ لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پیدا کرنے سے لے کر اسے مسلسل حل طلب رکھنے تک سارے فیصلے کہیں بالا بالا ہوتے ہیں۔

ماؤنٹ بیٹن کس کے کہنے پر گورداسپور کو بھارت میں شامل کرواتے ہیں تاکہ کشمیر تک جانے کا راستہ مل جائے اور جغرافیائی طور پر کشمیر کو بھارت کے ساتھ منسلک کر دیا جائے؟ صدر ایوب چینی پیشکش کو کیوں رد کرتے ہیں؟ وہی مشرف ہیں جو ایک بار اعلان لاہور کے برعکس کارگل کا محاذ کھول دیتے ہیں اور وہی مشرف بھارت سے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے قریب پہنچ جاتے ہیں، مگر عین اس لمحے کوئی ان کے نیچے سے سیڑھی کھینچ لیتا ہے۔

کشمیر دراصل عالمی سامراج کے ہاتھوں میں آیا ہوا وہ استرا ہے جس سے بال کاٹنے یا شہ رگ کاٹنے کا فیصلہ بھی اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔

جس سامراج نے قائد اعظم اور نہرو جیسے رہنماؤں کو کچھ نہ سمجھ لگنے دی اس کے سامنے مودی اور عمران خان کیا چیز ہیں۔ مگر خطے اور دنیا میں بڑھتے ہوئے چینی کردار کی وجہ سے عالمی سامراج یا اس کے کارندوں کے لیے کوئی بھی گیم پلان چلانا آسان نہیں ہوگا۔ اس کا انحصار اب پاکستان کی لیڈرشپ پر ہے کہ وہ عالمی سامراج کے ہتھکنڈوں کا ادراک کیسے کرتی ہے اور کیسے اپنے پتے شو کرتی ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ