مفتاح اسماعیل بھی قطر سے ایل این جی ڈیل کے مقدمے میں گرفتار

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق مشیر خزانہ کی قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست مسترد کر دی جس کے بعد نیب نے انہیں گرفتار کر لیا۔

بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے مفتاح اسماعیل کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی سماعت کی (روئٹرز)

 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایل این جی ٹرمینل کی قطر سے خریداری اور ٹرمینل کے قیام کے مقدمے میں مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد انہیں نیب نے عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا۔

بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے مفتاح اسماعیل کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی سماعت کی۔

اپنے دلائل میں مفتاح اسماعیل کے وکیل حیدر وحید نے کہا کہ ان کے موکل نیب کی تفتیش میں مدد کر رہے ہیں تو پھر انہیں گرفتار کرنے کی کیا وجہ ہے۔

ان کے مطابق، مفتاح اسماعیل کے وارنٹ محض سیاسی بنیادوں پر جاری کیے گئے ہیں اور سپریم کورٹ کے نیب قانون میں ضمانت پر احکامات موجود ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ضمانت انتہائی نوعیت کے حالات میں دی جا سکتی ہے اور آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا کہ یہ انتہائی نوعیت کے حالات ہیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا مفتاح اسماعیل نے ایل این جی کیس میں کچھ نہیں کیا تو وکیل حیدر وحید نے کہا کہ مفتاح اسماعیل سوئی سدرن گیس کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھے اور اس کیس میں تمام معاہدے ان کے ڈائریکٹر بننے سے پہلے ہوئے۔

حیدر وحید کا کہنا تھا کہ زیادہ قیمت پر ایل این جی لانے کا الزام غلط ہے کیونکہ کم قیمت پر ایل این جی لانا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے کہا: ’اگر ہم سے کم قیمت پر ایل این جی لانا ممکن ہوتا تو یہ (موجودہ) حکومت اب تک ضرور کرتی لیتی۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت مفتاح اسماعیل والی سے بھی زیادہ قیمت ادا کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہر روز ایل این جی کے لیے قومی خزانے سے دو لاکھ 72 ہزار ڈالر نکالے جاتے ہیں اور اب تک قومی خزانے کو ایک ارب 54 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا جا چکا ہے۔

پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ ایل این جی ٹرمینل میں پیپرا رولز کو فالو نہیں کیا گیا اور اس  ٹھیکے میں تین افراد ، یعنی شاہد خاقان عباسی، ایم ڈی پی ایس او اور مفتاح اسماعیل، نے کلیدی کردار ادا کیا۔

ان کے مطابق ایل این جی کا کانٹریکٹ اینگرو کمپنی (ای ای پی ایل) کو نوازنے کے لیے سب کچھ کیا گیا۔

نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ایل این جی معاہدے میں دو کمپنیوں نے کوالیفائی کیا اور ای ای پی ایل نامی کمپنی نے بولی میں کامیابی حاصل کی جس کے بعد اس کی بتائی گئی ایل این جی کی قیمت پر معاہدہ ہوگیا۔

 تفتیشی افسر  کے مطابق، مفتاح اسماعیل نے ایل این جی معاہدے سے متعلق میٹنگ کے منٹس شاہد خاقان عباسی کو بھیجے جس کی منظوری کے بعد منٹس آف میٹنگ جاری کیے گئے۔

اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ  شاہد خاقان عباسی کو منٹس آف میٹنگ کی میل کرنا کیسے غلط ہوا جب وہ مفتاح اسماعیل کے باس تھے اور ان سے پوچھنا ضروری تھا۔

نیب کے تفتیشی افسر نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کو منٹس آف میٹنگ کی میل کی وجہ سے ہی گرفتار کیا گیا ہے۔

نیب کے پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ اس کیس میں سابق سیکرٹری پٹرولیم عابد سعید وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں اوراپنے بیان میں مفتاح اسماعیل کا کردار بتا چکے ہیں۔

سردار مظفر نے عدالت میں عابد سعید کا بیان پڑھ کر بھی سنایا۔

مفتاح اسماعیل کےوکیل  وحید حیدر نے کہا:’ ہم پاکستان میں پہلی مرتبہ ایل این جی کو لے کر آئے۔ ایل این جی ٹرمینلز سے روزانہ 23 ہزار ڈالر کا فائدہ پہنچ رہاہے۔‘

ان کے مطابق ان کے موکل کا گرفتاری کا وارنٹ سیاسی بنیادوں پر نکالا  گیا ہے۔  

دلائل سننے کے بعد  اسلام آباد ہائیکورٹ نے مفتاح اسماعیل کی قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کر دی اور بعدزاں ان کو نیب نے حراست میں لے لیا ۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست